قرآن میں اللہ فرماتا ہے
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠:بقرہ﴾
۔
ترجمہ :
پھر اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ کسی اور شوہر کے ساتھ جماع کرے پھر اگر وہ طلاق دے دے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں میل کرلیں اگر یہ خیال ہے کہ حدود الہٰیہ کو قائم رکھ سکیں گے. یہ حدود الہٰیہ ہیں جنہیں خدا صاحبانِ علم واطلاع کے لئے واضح طور سے بیان کررہا ہے۔
۔
محلل کے لئے شرط ہے کہ دوام کی نیت کے ساتھ عقد دائمی کرے نہ یہ کہ ہم بستری کے بعد طلاق دینے کی نیت سے ، تاکہ عورت پہلے شوہر پر دوبارہ حلال ہوسکے اور رسول اللہ [ع] کا فرمان بھی اسی کے متعلق
ہے کہ
"اللہ نے حلال [حلالہ] کرنے والے اور جس کے لئے حلال کی جائے ، دونوں پر لعنت کی ہے "
یہ لعنت صرف اسی صورت میں ہے کہ دوسرا شوھر جماع کے بعد طلاق دینے کی نیت سے عقد دائمی کرے
جو درحقیقت نہ عقد دائمی ہے اور نہ عقد منقطع ، دائمی اس لئے نہیں ہے کہ اس میں ہمیشہ کے لئے اس رشتہ کی پائیداری کی نیت نہیں ہے اور موقت اس لئے نہیں کہ اس میں وقت کو معین نہیں کیا گیا جبکہ محلل کی
اصلی شرط یہ ہے کہ نکاح دائمہ ہو اور دائمی ہونے کا معیار یہ نہیں ہے کہ عقد میں مدت کو مقرر نہ کیا
جائے بلکہ ہمیشہ کے لئے ازواجی زندگی کا اراداہ ضروری ہے ، اگر چہ بعد میں طلاق تک نوبت پہنچ جائے
پہلے شوھر کے لئے عورت کو حلال کرنے کی نیت سے شادی کرنا اور طلاق دینا ایک ایسا عمل ہے جو نہ عقد دائم ہے اور نہ عقد موقت بلکہ یہ عمل زنا ہے اور زنا نہ صرف یہ کہ محلل نہیں ہے بلکہ تحریم کا سبب بھی ہے ، اس لئے کہ زانیہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور یہی وہ چیز ہے جو رسول اللہ کی لعنت کا سبب ہے ورنہ اگر صحیح طور پر نکاح دائمی کیا جائے اور بعد میں جائز شرعی وجوہات کی بناء پر
طلاق دے دی جائے تو یہ رسول اللہ کی لعنت کا باعث نہیں ہوسکتا ، اس لئے قرآن شریف نے اسے حلال
قرار دیا ہے۔
تحقیق: سید حسنی
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّـهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠:بقرہ﴾
۔
ترجمہ :
پھر اگر تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو عورت مرد کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ کسی اور شوہر کے ساتھ جماع کرے پھر اگر وہ طلاق دے دے تو دونوں کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں میل کرلیں اگر یہ خیال ہے کہ حدود الہٰیہ کو قائم رکھ سکیں گے. یہ حدود الہٰیہ ہیں جنہیں خدا صاحبانِ علم واطلاع کے لئے واضح طور سے بیان کررہا ہے۔
۔
محلل کے لئے شرط ہے کہ دوام کی نیت کے ساتھ عقد دائمی کرے نہ یہ کہ ہم بستری کے بعد طلاق دینے کی نیت سے ، تاکہ عورت پہلے شوہر پر دوبارہ حلال ہوسکے اور رسول اللہ [ع] کا فرمان بھی اسی کے متعلق
ہے کہ
"اللہ نے حلال [حلالہ] کرنے والے اور جس کے لئے حلال کی جائے ، دونوں پر لعنت کی ہے "
یہ لعنت صرف اسی صورت میں ہے کہ دوسرا شوھر جماع کے بعد طلاق دینے کی نیت سے عقد دائمی کرے
جو درحقیقت نہ عقد دائمی ہے اور نہ عقد منقطع ، دائمی اس لئے نہیں ہے کہ اس میں ہمیشہ کے لئے اس رشتہ کی پائیداری کی نیت نہیں ہے اور موقت اس لئے نہیں کہ اس میں وقت کو معین نہیں کیا گیا جبکہ محلل کی
اصلی شرط یہ ہے کہ نکاح دائمہ ہو اور دائمی ہونے کا معیار یہ نہیں ہے کہ عقد میں مدت کو مقرر نہ کیا
جائے بلکہ ہمیشہ کے لئے ازواجی زندگی کا اراداہ ضروری ہے ، اگر چہ بعد میں طلاق تک نوبت پہنچ جائے
پہلے شوھر کے لئے عورت کو حلال کرنے کی نیت سے شادی کرنا اور طلاق دینا ایک ایسا عمل ہے جو نہ عقد دائم ہے اور نہ عقد موقت بلکہ یہ عمل زنا ہے اور زنا نہ صرف یہ کہ محلل نہیں ہے بلکہ تحریم کا سبب بھی ہے ، اس لئے کہ زانیہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے اور یہی وہ چیز ہے جو رسول اللہ کی لعنت کا سبب ہے ورنہ اگر صحیح طور پر نکاح دائمی کیا جائے اور بعد میں جائز شرعی وجوہات کی بناء پر
طلاق دے دی جائے تو یہ رسول اللہ کی لعنت کا باعث نہیں ہوسکتا ، اس لئے قرآن شریف نے اسے حلال
قرار دیا ہے۔
تحقیق: سید حسنی
No comments:
Post a Comment