آیت اللہ العظمیٰ امام الخوئی رہ اور سعودیہ عرب کے سلفی عالم دین سے بحث
آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رہ فرماتے ہیں کہ سن 1353 ھجری میں زیارت بیت
اللہ سے شرفیاب ہوا ، اس دوران میری ملاقات ایک فاضل عالم دین جناب شیخ زین
العابدین سے ہوئی ، جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور
ان سے سجدہ گاہ چھین لیتا تھا ۔ میں نے اس سے کہا :
شیخنا! کیا
رسول اللہ ع نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار
نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا : کیوں نہیں ! میں نے کہا : تو پھر تم ان
مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھنتے ہو جبکہ وہ اللہ کی واحدانیت اور اس کے
رسول کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں ، انہوں نے
تربت (خاک کربلا) کو بُت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ میں نے
کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدر ے تفصیلی بحث کی جائے ، اس نے جواب
دیا : کوئی حرج نہیں
چنانچہ ہم
دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخرکار اس نے اپنے عمل کی معذرت طلب
کی اور اپنے رب استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا : درحقیقت اب تک میں غلط
فہمی کا شکار رہا ہوں
اس کے بعد اس نے مجھ سے درخواست کی کہ
مدینے میں قیام کے دوران مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہے ۔ میں نے بھی
آمادگی ظاھر کی اور اس نے پر شب مسجد نبوی میں بحث و مباحثہ کی ایک محفل
تشکیل پاتی تھی ۔ مدینہ میں تقریبا دس راتیں ہمارا قیام رہا اس دوران مختلف
مکاتب فکر کے افراد کا اجتماع ہوتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان مختلف
موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے ۔ آخر کار ، اس حجازی عالم نے ان اعتقادات اور
خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا جو وہ شیعوں کے بارے میں رکھتا تھا اور اس
نے مجھ سے وعدہ کیا وہ میری ان تمام بحثوں کو رسالہ " ام القریٰ " میں شایع
کرے گا تاکہ ان لوگوں کے لئے حق آشکار ہو جائے جو حق سے بغض و عناد نہیں
رکھتے اور اشتباۃ کا شکار ہیں اور یہ کہ وہ اس رسالے کا ایک نسخہ مجھے بھی
بھیجے گا ۔ مگر اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ شاید حالات نے اس کا ساتھ
نہ دیا ہو اور اس کے مقصد کی راہ میں روکاوٹ بن گئے ہوں
موسوعة الامام الخوئي ( البیان فی التفسير القرآن ) // ج 50 // ص 537
مندرجہ بالا واقعہ خود امام الخوئی رض اپنی تفسیر میں تعلیقات میں بیان کیا ہے
آیت اللہ العظمیٰ امام الخوئی رہ اور سعودیہ عرب کے سلفی عالم دین سے بحث
آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رہ فرماتے ہیں کہ سن 1353 ھجری میں زیارت بیت
اللہ سے شرفیاب ہوا ، اس دوران میری ملاقات ایک فاضل عالم دین جناب شیخ زین
العابدین سے ہوئی ، جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور
ان سے سجدہ گاہ چھین لیتا تھا ۔ میں نے اس سے کہا :
شیخنا! کیا
رسول اللہ ع نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار
نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا : کیوں نہیں ! میں نے کہا : تو پھر تم ان
مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھنتے ہو جبکہ وہ اللہ کی واحدانیت اور اس کے
رسول کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں ، انہوں نے
تربت (خاک کربلا) کو بُت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ میں نے
کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدر ے تفصیلی بحث کی جائے ، اس نے جواب
دیا : کوئی حرج نہیں
چنانچہ ہم
دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخرکار اس نے اپنے عمل کی معذرت طلب
کی اور اپنے رب استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا : درحقیقت اب تک میں غلط
فہمی کا شکار رہا ہوں
اس کے بعد اس نے مجھ سے درخواست کی کہ
مدینے میں قیام کے دوران مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہے ۔ میں نے بھی
آمادگی ظاھر کی اور اس نے پر شب مسجد نبوی میں بحث و مباحثہ کی ایک محفل
تشکیل پاتی تھی ۔ مدینہ میں تقریبا دس راتیں ہمارا قیام رہا اس دوران مختلف
مکاتب فکر کے افراد کا اجتماع ہوتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان مختلف
موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے ۔ آخر کار ، اس حجازی عالم نے ان اعتقادات اور
خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا جو وہ شیعوں کے بارے میں رکھتا تھا اور اس
نے مجھ سے وعدہ کیا وہ میری ان تمام بحثوں کو رسالہ " ام القریٰ " میں شایع
کرے گا تاکہ ان لوگوں کے لئے حق آشکار ہو جائے جو حق سے بغض و عناد نہیں
رکھتے اور اشتباۃ کا شکار ہیں اور یہ کہ وہ اس رسالے کا ایک نسخہ مجھے بھی
بھیجے گا ۔ مگر اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ۔ شاید حالات نے اس کا ساتھ
نہ دیا ہو اور اس کے مقصد کی راہ میں روکاوٹ بن گئے ہوں
موسوعة الامام الخوئي ( البیان فی التفسير القرآن ) // ج 50 // ص 537
مندرجہ بالا واقعہ خود امام الخوئی رض اپنی تفسیر میں تعلیقات میں بیان کیا ہے
No comments:
Post a Comment