Sunday, 23 December 2012

SAYED HASNI BHAI KI POST TO EMRAAN RIZVI

قرآن ، ترک اولیٰ اور حضرت آدم ع کی خطا

ترک اولیٰ سے مراد یہ ہے کہ انسان بہتر کام کو چھوڑ کرکم درجہ کاکام انجام دے ۔ قرآن میں انبیاء ع سے منسوب ہر واقعہ کو ہم ترک اولیٰ پر محمول نہیں کرسکتے ، آج ہم حضرت آدم ع کے واقعہ کو دیکھتے ہیں کہ آیا یہ ترک اولیٰ
تھا یا نہیں .

علماء کے درمیان اس مسئلہ پر اختلاف ہے کہ حضرت آدم ع نے شجرہ ممنوعہ کا پھل کھا کر گناہ کیا یا نہیں ؟ شیعہ علماء زیادہ تر یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ گناہ نہیں بلکہ ترک اولیٰ تھا ۔ لیکن شیعہ علماء کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حضرت آدم ع کا یہ فعل گناہ تھا ۔ ان دونوں گروہوں کے اختلاف رائے کی بنیادی وجہ ، فہم قرآن میں ان کا اختلاف نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اول الذکر گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء و رسل قبل از نبوت و رسالت بھی معصوم ہوتے ہیں ، لہذا جن آیات و احادیث میں ان کی طرف گناہ کی نسبت دی گئی ہے ، ان کی تاویل کر کے وہ گناہ سے ترک اولیٰ مراد لیتے ہیں ۔ دوسرا گروہ پہلے سے بنائے ہوئے عقائد کی روشنی میں آیات کی تاویل کی بجائے آیات کے واضح اور صریح بیانات کی بنیاد پر یہ کہتا ہے کہ انبیاء و رسل کے قبل از نبوت و رسالت معصوم ہونے پر کوئی قرآنی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ وہ حضرت آدم ع کے واقعہ میں استعمال ہونے والے الفاظ سے استدلال کرتے ہی ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ، مثلا وہ آدم ع کو شجرہ ممنوعہ کا پھل کھانے کی ممانعت ان الفاظ میں کی گئی ہے :

لَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ﴿٣٥: بقرہ﴾

تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم ظالمین میں سے ہو جائو گے

اگر قرآن مجید کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی ممانعت کے لئے "قریب مت جائو" کے الفاظ استعمال کئے ہیں ، اس سے مراد عام ممانعت نہیں بلکہ اس کا مقصد ممانعت پر زور دینا اور اس میں تاکید پیدا کرنا ہے ، مثلا "

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴿٣٢: بنی اسرائیل ﴾

زنا کے قریب نہ جائو ، یہ حد سے بڑھا ہوا گناہ اور بہت برا راستہ ہے

لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ (نساء // 43)

جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ ( بنی اسرائیل // 34)

ہتیم کے مال کے قریب نہ جائو

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ سورہ بقرہ // 222)

حالت حیض میں عورتوں کے قریب نہ جائو یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں

معلوم ہوا کہ ممنوعہ کا پھل کھانا حرام اور گناہ نہ ہوتا تو اس کے لئے "لا تقربا" کا لفظ اسعتمال نہ ہوتا

اسی طرح فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ، یعنی "ورنہ تم ظالمین مین سے ہوجائو گے " ,کے الفاظ بھی نہی اور ممانعت کی شدت کو ظاھر کرتے ہیں ، کیا اللہ تعالیٰ یہ نہ کہ سکتا تھا کہ اس درخت کے قریب سے نہ کھائو ورنہ تم ترک اولیٰ کے مرتکب ہوجائو گے ؟

اسی طرح سورہ طہ کی مذکورہ آیت "وَ عصیٰ آدمُ ربَّہ فغویٰ "یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بہک گیا ، میں عصی اور غوٰی کے الفاظ قابل غور ہیں ۔ عصیٰ یعنی معصیت سے فعل ماضی ہے جس کے معنی ہیں "نافرمانی " ۔

قرآن شریف میں "عصی" کا لفظ متعدد مرتبہ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ شدید نافرمانی کے لئے آیا ہے جیسا کہ

فَعَصَىٰ فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ ﴿١٦: مزمل﴾

تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی

وَتِلْكَ عَادٌ ۖ جَحَدُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ (ہود // آیت 59 )

یہ قوم عاد ہے جس نے پروردگار کی آیتوں کا انکار کیا اس کے رسولوں کی نافرمانی کی

بنابرایں عصی ٰ کے معنی ترک اولیٰ کرنا ہر گز درست نہیں ہے ، خاص طور پر جب اس کے بعد فغوٰی کا لفظ بھی آرہا ہو ، جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو بارگاہ قرب سے دھتکارا تو اس نے کہا

لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٨٢﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٨٣:ص ﴾

یعنی میں تیرے خالص بندوں کے سوا ان سب کو ضرور بہکا کر چھوڑوں گا

آدم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے وَ عصیٰ آدمُ ربَّہ فغویٰ یعنی آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بہک گیا سورہ طہ آیت نمبر ۱۲۱

اب ظاھر سی بات ہے کہ "لا تقربا" ، فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ، وعصیٰ ،اور فغویٰ جیسے الفاظ جس ممانعت میں استعمال ہوئے ہوں ، انہیں نہی تحریمی نہ ماننا اور اس نہی کی مخالفت کو ترک اولیٰ کا نام دینا زیادتی ہے

اگر حضرت آدم کا فعل " ترک اولیٰ " ہوتا تو اللہ جو کہ حکیم ہے ، اپنی کتاب حکیم میں ترک اولیٰ پر دلالت کرنے والے الفاظ استعمال کرتا ، اللہ تعالیٰ کو اپنے رسولوں کی عزت کا ہم سے زیادہ خیال ہے

جب حضرت آدم ع نے توبہ کر لی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول کی تو ، اللہ نے ان کو چن لیا نبوت کے لئے اور عصمت پر بھی فائز ہو گئے ، جیسا کہ سورہ طہ میں آیت 122 میں اللہ کہتا ہے

ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ ﴿١٢٢﴾

پھر خدا نے انہیں چن لیا اور ان کی توبہ قبول کرلی اور انہیں راستہ پر لگادیا

No comments:

Post a Comment