کفار کی نجاست کا حکم اور ہماری تحقیق
کفار کی نجاست کے متعلق فقہاء امامیہ میں اختلاف ہے ۔ فقہاء کی کثیر
تعداد ان کو نجس مانتی ہے اور اس میں سے بعض احتیاط واجب کی بنا پر نجس
مانتے ہیں ، جبکہ فقہاء امامیہ کا ایک طائفہ کی تحقیق کے مطابق انسان چاہے
کافر ہو یا مسلم وہ پاک ہے ۔
کفار کی طہارت کے قائلین ، بعض فقہاء میں
سے بعض یہ نام یہ ہیں : آیت اللہ العظمی ٰ فضل اللہ رہ ، آیت اللہ العظمیٰ
صادقی طہرانی رہ ، آیت اللہ جناتی حفظہ اللہ ، آیت اللہ الظمی ٰ یوسف
صانعی حفظہ اللہ ، آیت اللہ ہادی معرفت وغیرہ کفار کی طہارت کے قائل ہیں
۔
آیت اللہ فضل اللہ رہ فرماتے ہیں کہ ہماری رائے ہے کہ تمام انسان پاک ہیں ،
چاہے وہ مسلمان ہوں چاہے کافر ، کیونکہ کوئی انسان بھی انسان ذاتا نجس
نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ کسی کا عقیدہ نجس ہو ، اسکے افکار و احساسات نجس ہوں ،
لیکن شریعت کے گہرے مطالعے اور تحقیق کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی
انسان کی ذاتی نجساست کے بارے میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ، لہذا مومن
بھی اور کافر بھی نجاست سے آلودہ ہونے کی وجہ سے نجس ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم میں نجاست سے مراد ، شرک کی نجاست ہے ، شرک کی ناپاکی فکری گندگی
ہے ۔ ہمارے اس دعوے کی دلیل وہ استدلال ہے جو خود آیت میں کہا گیا ہے :
ارشاد الہی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ
نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ
اگر یہاں نجسات سے
مراد یہ ہوتی کہ مشرکین ذاتا نجس ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ اگر نجاست گیلی نہ
تو کوئی نجاست منتقل نہیں ہوتی ، لہذا ان کی نجاست اس صورت میں منتقل ہوتی
جب وہ گیلے خانہ خدا میں داخل ہوتے ، وہ فقہاء بھی جو کہتے ہیں کہ کفار
ناپاک ہیں ، کفار کی نجاست کے ثبوت میں سورہ توبہ آیت 29 سے استدلال نہیں
کرتے کیونکہ اس آیت میں نجاست سے مراد معنوی نجاست ہے
دنیائے جوان // ص 258
آیت اللہ جناتی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
غیر مسلمان کسی بھی قسم (اہل کتاب ، مشرکین اور ملحدین ) سے تعلق رکھتے
ہوں وہ ذات اور بدن و جسم کے اعتبار سے پاک ہیں اور اگر وہ ان چیزوں سے
پرہیز کریں جو مسلمانوں کے ہاں نجس ہیں تو ان کی عرضی نجاست بھی ثابت نہیں
ہے
آیت اللہ صادقی طہرانی رہ فرماتے ہیں
مشرکین کے بارے میں قرآن شریف کی آیت یہ ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَ
ایمان والو !مشرکین صررِ نجاست ہیں لہذا خبردار اس سال کے بعد مسجدالحرام میں داخل نہ ہونے پائیں
توبہ // آیت 28
المشرکون کا لفظ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں بیان شدہ نجاست کا تعلق ان کی
روح ، عقائد اور عمل سے ہے ، جسم سے نہیں ، جسم نہ موحد ہے اور نہ مشرک ،
ہمارے اس دعویٰ کی ایک اور دلیل آیت کا یہ حصہ ہے :
فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ
اس لئے کہ نجاست اگر مسجد کو آلودہ نہ کرے یا مسجد کی توہین کا موجب نہ ہو
تو اس کا مسجد میں لے جانا حرام نہیں ہے م یہی آیت مزید کہتی ہے کہ
وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ
اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہے تو عنقریب خدا چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے تمہیں غنی بنادے گا
حج کے دنوں میں مشرکین کے تجارتی قافلے مکہ آتے تھے جن سے اہل مکہ کو بہت
مالی فائدہ ہوتا پہنچتا تھا جب ان کے مسجد الحرام کے قریب آنے پر پابندی
لگی تو مسلمانوں میں اقتصادی مشکلات کا خوف پیدا ہونے کا مکان ایک قدرتی سی
بات تھی ، لہذا الہ مسلمانوں کو یہ تسلی دے رہا ہے کہ اگر اس نے چاہا تو
اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا ۔
یہاں سے ایک اور بات ظاھر ہوتی ہے کہ
اس آیت میں مسجد الحرام سے مراد صرف مسجد کا احاطہ نہیں ہے ، اس لئے کہ
مسجد کے اندر کبھی تجارت نہیں ہوتی تھی بلکہ اس سے مراد شہر مکہ یا پورا
حرم ہے ، اس لئے اگر مشرکین کا صرف مسجد میں داخل ہونا یا اس کے نزدیک ہونا
ممنوع ہوتا اور مکہ میں داخل ہونا جائز ہوتا تو مالی تنگی کا خوف پیدا
ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی
نتیجہ یہ کہ مشرکین کی قلبی اور باطنی نجاست
کی وجہ سے مسجد الحرام میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے ، اس لئے
مسجد الحرام توحید کا مرکز اور پر قسم کی روحانی اور باطنی طہارت کا سر
چشمہ ہے
الغرض انسان جو بھی ہو اور جیسا بھی عقیدہ کھتا ہو ، کتے اور سور کی مانند نجس العین نہیں ہوتا
توضیح المسائل قرآن و سنت کی روشنی میں // ص 79 تا 80
توضیح المسائل قرآن و سنت کی روشنی میں // ص 79 تا 80
آیت اللہ الخوئی رہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کافر پر اہل کتاب کا عنوان صادق
نہ آئے وہ اگرچہ کافر کے حکم میں ہے لیکن اسے نجس قرار دینے کے لئے دلیل
کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ چونکہ سابقہ ادلہ اگر درست ہو تب
بھی وہ اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہیں اور فرض یہ ہے کہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں
لیکن اس کے باوجود احتیاط ضروری ہے کیونکہ مشہور فقہاء مطلق کافر کی نجاست
کے قائل ہیں ۔
التنقیح // ج2 // ص57
السید خوئی رہ کے
نزدیک بھی کفار کو نجس قرار دینے میں دلیل کی ضرورت ہے جو کہ نہیں ہے
چنانچہ وہ یہاں پر احتیاط واجب کی بنا پر نجس کہ رہے ہیں کیونکہ مشہور یہ
ہی ہے
۔
شہید باقر آلصدر رہ کی رائے بھی یہی تھی کہ
تمام انسان پاک ہیں البتہ غیر کتاب کافر کے بارے میں پائے جانے والے اجماع
کے شبہ کی وجہ سے اس کے بارے میں آپ احتیاط کے قائل تھے ۔ ملاحظہ کریں بحوث
شرح عروۃ الوثقی
کیا سوہ توبہ آیت 28 کفار کی نجاست پر دلیل ہے ؟
جیسا کہ مندرجہ بالا بحث میں امام فضل اللہ رہ اور فقیہ قرآنی آیت صادقی
رہ کی بحث ملاحظہ کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ آیت ظاھری نجاست پر دلالت
نہیں کرتی بلکہ باطنی نجاست پر دلالت کرتی ہے
اسی طرح ایت اللہ خوئی رہ جو کہ احتیاط واجب کی بنا پر کفار کی نجاست کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ
حق یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کی نجاست پر دلالت نہیں کرتی ، چہ جائیکہ اہل کتاب کی نجاست پر ملاحظہ کریں التنقیح // ج 2 // ص 44
امام الخمینی رہ فرماتے ہیں کہ تمام کفار کی نجاست ثابت کرنے سے آیت قاصر ہے ۔ ملاحظہ کریں کتاب الطہارہ // ج 3// ص 298
السید خونساری نے جامع المدارک میں بھی فرمایا ہے کہ کسی کافر کی نجاست آیت سے ثابت نہیں ہوتی ہے
آیت اللہ ناصر مکارم نے بھی تفسیر نمونہ اور تفسیر الامثل میں اس آیت کے
متعلق فرمایا ہے کہ یہاں نجاست سے مراد قلبی نجاست ہے ،ظاھری و ذاتی نجاست
سے اس آیت کے ذریعے سے استدلال نہیں کر سکتے
کفار کی نجاست کے متعلق فقہاء امامیہ میں اختلاف ہے ۔ فقہاء کی کثیر تعداد ان کو نجس مانتی ہے اور اس میں سے بعض احتیاط واجب کی بنا پر نجس مانتے ہیں ، جبکہ فقہاء امامیہ کا ایک طائفہ کی تحقیق کے مطابق انسان چاہے کافر ہو یا مسلم وہ پاک ہے ۔
کفار کی طہارت کے قائلین ، بعض فقہاء میں سے بعض یہ نام یہ ہیں : آیت اللہ العظمی ٰ فضل اللہ رہ ، آیت اللہ العظمیٰ صادقی طہرانی رہ ، آیت اللہ جناتی حفظہ اللہ ، آیت اللہ الظمی ٰ یوسف صانعی حفظہ اللہ ، آیت اللہ ہادی معرفت وغیرہ کفار کی طہارت کے قائل ہیں
۔
آیت اللہ فضل اللہ رہ فرماتے ہیں کہ ہماری رائے ہے کہ تمام انسان پاک ہیں ، چاہے وہ مسلمان ہوں چاہے کافر ، کیونکہ کوئی انسان بھی انسان ذاتا نجس نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ کسی کا عقیدہ نجس ہو ، اسکے افکار و احساسات نجس ہوں ، لیکن شریعت کے گہرے مطالعے اور تحقیق کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی ذاتی نجساست کے بارے میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ، لہذا مومن بھی اور کافر بھی نجاست سے آلودہ ہونے کی وجہ سے نجس ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم میں نجاست سے مراد ، شرک کی نجاست ہے ، شرک کی ناپاکی فکری گندگی ہے ۔ ہمارے اس دعوے کی دلیل وہ استدلال ہے جو خود آیت میں کہا گیا ہے : ارشاد الہی ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ
اگر یہاں نجسات سے مراد یہ ہوتی کہ مشرکین ذاتا نجس ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ اگر نجاست گیلی نہ تو کوئی نجاست منتقل نہیں ہوتی ، لہذا ان کی نجاست اس صورت میں منتقل ہوتی جب وہ گیلے خانہ خدا میں داخل ہوتے ، وہ فقہاء بھی جو کہتے ہیں کہ کفار ناپاک ہیں ، کفار کی نجاست کے ثبوت میں سورہ توبہ آیت 29 سے استدلال نہیں کرتے کیونکہ اس آیت میں نجاست سے مراد معنوی نجاست ہے
دنیائے جوان // ص 258
آیت اللہ جناتی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
غیر مسلمان کسی بھی قسم (اہل کتاب ، مشرکین اور ملحدین ) سے تعلق رکھتے ہوں وہ ذات اور بدن و جسم کے اعتبار سے پاک ہیں اور اگر وہ ان چیزوں سے پرہیز کریں جو مسلمانوں کے ہاں نجس ہیں تو ان کی عرضی نجاست بھی ثابت نہیں ہے
آیت اللہ صادقی طہرانی رہ فرماتے ہیں
مشرکین کے بارے میں قرآن شریف کی آیت یہ ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَ
ایمان والو !مشرکین صررِ نجاست ہیں لہذا خبردار اس سال کے بعد مسجدالحرام میں داخل نہ ہونے پائیں
توبہ // آیت 28
المشرکون کا لفظ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس میں بیان شدہ نجاست کا تعلق ان کی روح ، عقائد اور عمل سے ہے ، جسم سے نہیں ، جسم نہ موحد ہے اور نہ مشرک ، ہمارے اس دعویٰ کی ایک اور دلیل آیت کا یہ حصہ ہے :
فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ
اس لئے کہ نجاست اگر مسجد کو آلودہ نہ کرے یا مسجد کی توہین کا موجب نہ ہو تو اس کا مسجد میں لے جانا حرام نہیں ہے م یہی آیت مزید کہتی ہے کہ
وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ
اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہے تو عنقریب خدا چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے تمہیں غنی بنادے گا
حج کے دنوں میں مشرکین کے تجارتی قافلے مکہ آتے تھے جن سے اہل مکہ کو بہت مالی فائدہ ہوتا پہنچتا تھا جب ان کے مسجد الحرام کے قریب آنے پر پابندی لگی تو مسلمانوں میں اقتصادی مشکلات کا خوف پیدا ہونے کا مکان ایک قدرتی سی بات تھی ، لہذا الہ مسلمانوں کو یہ تسلی دے رہا ہے کہ اگر اس نے چاہا تو اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا ۔
یہاں سے ایک اور بات ظاھر ہوتی ہے کہ اس آیت میں مسجد الحرام سے مراد صرف مسجد کا احاطہ نہیں ہے ، اس لئے کہ مسجد کے اندر کبھی تجارت نہیں ہوتی تھی بلکہ اس سے مراد شہر مکہ یا پورا حرم ہے ، اس لئے اگر مشرکین کا صرف مسجد میں داخل ہونا یا اس کے نزدیک ہونا ممنوع ہوتا اور مکہ میں داخل ہونا جائز ہوتا تو مالی تنگی کا خوف پیدا ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی
نتیجہ یہ کہ مشرکین کی قلبی اور باطنی نجاست کی وجہ سے مسجد الحرام میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے ، اس لئے مسجد الحرام توحید کا مرکز اور پر قسم کی روحانی اور باطنی طہارت کا سر چشمہ ہے
الغرض انسان جو بھی ہو اور جیسا بھی عقیدہ کھتا ہو ، کتے اور سور کی مانند نجس العین نہیں ہوتا
توضیح المسائل قرآن و سنت کی روشنی میں // ص 79 تا 80
توضیح المسائل قرآن و سنت کی روشنی میں // ص 79 تا 80
آیت اللہ الخوئی رہ فرماتے ہیں کہ جب کسی کافر پر اہل کتاب کا عنوان صادق نہ آئے وہ اگرچہ کافر کے حکم میں ہے لیکن اسے نجس قرار دینے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں ہے ۔ چونکہ سابقہ ادلہ اگر درست ہو تب بھی وہ اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہیں اور فرض یہ ہے کہ وہ اہل کتاب نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود احتیاط ضروری ہے کیونکہ مشہور فقہاء مطلق کافر کی نجاست کے قائل ہیں ۔
التنقیح // ج2 // ص57
السید خوئی رہ کے نزدیک بھی کفار کو نجس قرار دینے میں دلیل کی ضرورت ہے جو کہ نہیں ہے چنانچہ وہ یہاں پر احتیاط واجب کی بنا پر نجس کہ رہے ہیں کیونکہ مشہور یہ ہی ہے
۔
شہید باقر آلصدر رہ کی رائے بھی یہی تھی کہ تمام انسان پاک ہیں البتہ غیر کتاب کافر کے بارے میں پائے جانے والے اجماع کے شبہ کی وجہ سے اس کے بارے میں آپ احتیاط کے قائل تھے ۔ ملاحظہ کریں بحوث شرح عروۃ الوثقی
کیا سوہ توبہ آیت 28 کفار کی نجاست پر دلیل ہے ؟
جیسا کہ مندرجہ بالا بحث میں امام فضل اللہ رہ اور فقیہ قرآنی آیت صادقی رہ کی بحث ملاحظہ کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ آیت ظاھری نجاست پر دلالت نہیں کرتی بلکہ باطنی نجاست پر دلالت کرتی ہے
اسی طرح ایت اللہ خوئی رہ جو کہ احتیاط واجب کی بنا پر کفار کی نجاست کے قائل ہیں وہ فرماتے ہیں کہ
حق یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کی نجاست پر دلالت نہیں کرتی ، چہ جائیکہ اہل کتاب کی نجاست پر ملاحظہ کریں التنقیح // ج 2 // ص 44
امام الخمینی رہ فرماتے ہیں کہ تمام کفار کی نجاست ثابت کرنے سے آیت قاصر ہے ۔ ملاحظہ کریں کتاب الطہارہ // ج 3// ص 298
السید خونساری نے جامع المدارک میں بھی فرمایا ہے کہ کسی کافر کی نجاست آیت سے ثابت نہیں ہوتی ہے
آیت اللہ ناصر مکارم نے بھی تفسیر نمونہ اور تفسیر الامثل میں اس آیت کے متعلق فرمایا ہے کہ یہاں نجاست سے مراد قلبی نجاست ہے ،ظاھری و ذاتی نجاست سے اس آیت کے ذریعے سے استدلال نہیں کر سکتے
No comments:
Post a Comment