قرآن و سنّت اور اقوال معصومین(ع) سے واضح ہوتا ہے کہ اجتہاد کی دو اقسام ہیں:
1) مذموم اجتہاد
2) ممدوح اجتہاد
مذموم اجتہاد وہ ہے جس سے ہمیں منع کیا گيا ہے، اس سے مراد وہ ذاتی رائے
اور قیاس ہے جو واضح قرآنی آیات اور احادیث کے مقابلے میں یا نصوص کی
موجودگی میں کیا جائے۔ جبکہ ممدوح اجتہاد وہ ہے جو قرآن و سنّت کی روشنی
میں کی جائے یا دوسرے الفاظ میں احکامات کو قرآن و سنّت کی روشنی میں
استخراج کرنے کو ممدوح اجتہاد کہا جاتا ہے۔
ممدوح اجتہاد کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہمیں اس کا حکم ملتا ہے، بطور تبرّک ہم یہاں ایک حدیث پیش کرتے ہیں:
ٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّمَا عَلَيْنَا أَنْ نُلْقِيَ
إِلَيْكُم الْأُصُولَ وَ عَلَيْكُمْ أَنْ تُفَرِّعُو (وسائل الشیعہ: ج18
ص41، بحارالانوار: ج2 ص341)
یعنی امام صادق(ع) فرما رہے ہیں کہ
آئمہ(ع) اصول بیان فرماتے ہیں اور ان سے فروع کو اخذ کرنا ہمارا کام ہے،
اور اسی کا نام اجتہاد ہے۔
دوسری طرف ہمیں مذموم اجتہاد کی مذمّت
ملتی ہے جو قرآن و سنّت کی موجودگی میں ذاتی عقل و رائے پر کیا جاتا ہے۔ اس
کی مثالیں اہل سنّت میں موجود قیاس، استحسان اور مصالح مرسلہ جیسے اصول
ہیں جو فقط ذاتی رائے پر مبنی ہوتی ہے۔
الحمدللہ اجتہاد کا یہ
سلسلہ غیبت صغری سے لے کر اب تک شیعوں کے درمیان موجود رہا ہے۔ لیکن بعض
غالی مذموم اجتہاد کی مذمّت پر کچھ احادیث لے کر اس ممدوح اجتہاد کے خلاف
سرگرم عمل ہیں اور سادہ لوح شیعوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے
مراجع عظّام ہرگز نصوص کے مقابلے میں ذاتی رائے پر عمل نہیں کرتے بلکہ یہ
قرآن و سنّت سے احکامات کا استخراج کرتے ہیں۔
لیکن شیعوں کے بھیس
میں موجود یہ غالی "اجتہاد" کے ظاہری لفظ کو لے کر یوں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ
وہی اجتہاد ہے جس کی مذمّت ہے اور یہ اہل سنّت سے آیا ہے۔ یہ جاہل ایسے
ہیں جنہوں نے خود اجتہاد اور اصول اجتہاد کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا، ان کی
مثال اس شخص کی سی ہے جو کبھی خود سائنس نہ پڑھے لیکن سائنس کو برا بھلا
کہے۔
آج گروپ پر ایسی ہی ایک پوسٹ دیکھی تو بے ساختہ یہ حروف
لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ پوسٹ اس تصویر کی شکل میں موجود ہے۔ قارئین خود
فیصلہ کریں کہ یہ ملعون کس قدر بدبخت ہیں کہ جھوٹ بولتے ہوئے اور علمائے حق
کی توہین کرتے ہوئے ذرّہ برابر بھی نہیں چوکتے۔
ستم بالائے ستم
یہ کہ مجتہدین کو برملا مقصّر کہہ رہے ہیں۔ گویا تمام شیعہ علماء مقصّر
ہوئے، اور ان کے حساب سے شیعہ فقط چند مشرکین کی ایک جماعت رہ جاتی ہے۔
"مقصّر" لفظ اتنا سستا کر دیا ہے تو قارئین خود ملاخطہ کریں کہ مومنین پر
ہونے والی اس تقصیر کی تہمت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جبکہ مقصّر وہ ہے جو
ثابت شدہ اور مسلّم فضائل کا انکار کرے جیسے خلافت بلا فصل یا اہل بیت(ع)
کی عصمت۔۔۔ یہ جن پر تقصیر کی تہمت لگاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان مسلّم
فضائل سے انکار نہیں کرتا۔
ہم دل و جان سے ان غلاّت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
قرآن و سنّت اور اقوال معصومین(ع) سے واضح ہوتا ہے کہ اجتہاد کی دو اقسام ہیں:
1) مذموم اجتہاد
2) ممدوح اجتہاد
مذموم اجتہاد وہ ہے جس سے ہمیں منع کیا گيا ہے، اس سے مراد وہ ذاتی رائے اور قیاس ہے جو واضح قرآنی آیات اور احادیث کے مقابلے میں یا نصوص کی موجودگی میں کیا جائے۔ جبکہ ممدوح اجتہاد وہ ہے جو قرآن و سنّت کی روشنی میں کی جائے یا دوسرے الفاظ میں احکامات کو قرآن و سنّت کی روشنی میں استخراج کرنے کو ممدوح اجتہاد کہا جاتا ہے۔
ممدوح اجتہاد کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہمیں اس کا حکم ملتا ہے، بطور تبرّک ہم یہاں ایک حدیث پیش کرتے ہیں:
ٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّمَا عَلَيْنَا أَنْ نُلْقِيَ إِلَيْكُم الْأُصُولَ وَ عَلَيْكُمْ أَنْ تُفَرِّعُو (وسائل الشیعہ: ج18 ص41، بحارالانوار: ج2 ص341)
یعنی امام صادق(ع) فرما رہے ہیں کہ آئمہ(ع) اصول بیان فرماتے ہیں اور ان سے فروع کو اخذ کرنا ہمارا کام ہے، اور اسی کا نام اجتہاد ہے۔
دوسری طرف ہمیں مذموم اجتہاد کی مذمّت ملتی ہے جو قرآن و سنّت کی موجودگی میں ذاتی عقل و رائے پر کیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں اہل سنّت میں موجود قیاس، استحسان اور مصالح مرسلہ جیسے اصول ہیں جو فقط ذاتی رائے پر مبنی ہوتی ہے۔
الحمدللہ اجتہاد کا یہ سلسلہ غیبت صغری سے لے کر اب تک شیعوں کے درمیان موجود رہا ہے۔ لیکن بعض غالی مذموم اجتہاد کی مذمّت پر کچھ احادیث لے کر اس ممدوح اجتہاد کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور سادہ لوح شیعوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے مراجع عظّام ہرگز نصوص کے مقابلے میں ذاتی رائے پر عمل نہیں کرتے بلکہ یہ قرآن و سنّت سے احکامات کا استخراج کرتے ہیں۔
لیکن شیعوں کے بھیس میں موجود یہ غالی "اجتہاد" کے ظاہری لفظ کو لے کر یوں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ وہی اجتہاد ہے جس کی مذمّت ہے اور یہ اہل سنّت سے آیا ہے۔ یہ جاہل ایسے ہیں جنہوں نے خود اجتہاد اور اصول اجتہاد کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا، ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کبھی خود سائنس نہ پڑھے لیکن سائنس کو برا بھلا کہے۔
آج گروپ پر ایسی ہی ایک پوسٹ دیکھی تو بے ساختہ یہ حروف لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ پوسٹ اس تصویر کی شکل میں موجود ہے۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ یہ ملعون کس قدر بدبخت ہیں کہ جھوٹ بولتے ہوئے اور علمائے حق کی توہین کرتے ہوئے ذرّہ برابر بھی نہیں چوکتے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ مجتہدین کو برملا مقصّر کہہ رہے ہیں۔ گویا تمام شیعہ علماء مقصّر ہوئے، اور ان کے حساب سے شیعہ فقط چند مشرکین کی ایک جماعت رہ جاتی ہے۔ "مقصّر" لفظ اتنا سستا کر دیا ہے تو قارئین خود ملاخطہ کریں کہ مومنین پر ہونے والی اس تقصیر کی تہمت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جبکہ مقصّر وہ ہے جو ثابت شدہ اور مسلّم فضائل کا انکار کرے جیسے خلافت بلا فصل یا اہل بیت(ع) کی عصمت۔۔۔ یہ جن پر تقصیر کی تہمت لگاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان مسلّم فضائل سے انکار نہیں کرتا۔
ہم دل و جان سے ان غلاّت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
1) مذموم اجتہاد
2) ممدوح اجتہاد
مذموم اجتہاد وہ ہے جس سے ہمیں منع کیا گيا ہے، اس سے مراد وہ ذاتی رائے اور قیاس ہے جو واضح قرآنی آیات اور احادیث کے مقابلے میں یا نصوص کی موجودگی میں کیا جائے۔ جبکہ ممدوح اجتہاد وہ ہے جو قرآن و سنّت کی روشنی میں کی جائے یا دوسرے الفاظ میں احکامات کو قرآن و سنّت کی روشنی میں استخراج کرنے کو ممدوح اجتہاد کہا جاتا ہے۔
ممدوح اجتہاد کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ ہمیں اس کا حکم ملتا ہے، بطور تبرّک ہم یہاں ایک حدیث پیش کرتے ہیں:
ٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: إِنَّمَا عَلَيْنَا أَنْ نُلْقِيَ إِلَيْكُم الْأُصُولَ وَ عَلَيْكُمْ أَنْ تُفَرِّعُو (وسائل الشیعہ: ج18 ص41، بحارالانوار: ج2 ص341)
یعنی امام صادق(ع) فرما رہے ہیں کہ آئمہ(ع) اصول بیان فرماتے ہیں اور ان سے فروع کو اخذ کرنا ہمارا کام ہے، اور اسی کا نام اجتہاد ہے۔
دوسری طرف ہمیں مذموم اجتہاد کی مذمّت ملتی ہے جو قرآن و سنّت کی موجودگی میں ذاتی عقل و رائے پر کیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں اہل سنّت میں موجود قیاس، استحسان اور مصالح مرسلہ جیسے اصول ہیں جو فقط ذاتی رائے پر مبنی ہوتی ہے۔
الحمدللہ اجتہاد کا یہ سلسلہ غیبت صغری سے لے کر اب تک شیعوں کے درمیان موجود رہا ہے۔ لیکن بعض غالی مذموم اجتہاد کی مذمّت پر کچھ احادیث لے کر اس ممدوح اجتہاد کے خلاف سرگرم عمل ہیں اور سادہ لوح شیعوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے مراجع عظّام ہرگز نصوص کے مقابلے میں ذاتی رائے پر عمل نہیں کرتے بلکہ یہ قرآن و سنّت سے احکامات کا استخراج کرتے ہیں۔
لیکن شیعوں کے بھیس میں موجود یہ غالی "اجتہاد" کے ظاہری لفظ کو لے کر یوں ظاہر کرتے ہیں کہ یہ وہی اجتہاد ہے جس کی مذمّت ہے اور یہ اہل سنّت سے آیا ہے۔ یہ جاہل ایسے ہیں جنہوں نے خود اجتہاد اور اصول اجتہاد کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا، ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کبھی خود سائنس نہ پڑھے لیکن سائنس کو برا بھلا کہے۔
آج گروپ پر ایسی ہی ایک پوسٹ دیکھی تو بے ساختہ یہ حروف لکھنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ پوسٹ اس تصویر کی شکل میں موجود ہے۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ یہ ملعون کس قدر بدبخت ہیں کہ جھوٹ بولتے ہوئے اور علمائے حق کی توہین کرتے ہوئے ذرّہ برابر بھی نہیں چوکتے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ مجتہدین کو برملا مقصّر کہہ رہے ہیں۔ گویا تمام شیعہ علماء مقصّر ہوئے، اور ان کے حساب سے شیعہ فقط چند مشرکین کی ایک جماعت رہ جاتی ہے۔ "مقصّر" لفظ اتنا سستا کر دیا ہے تو قارئین خود ملاخطہ کریں کہ مومنین پر ہونے والی اس تقصیر کی تہمت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جبکہ مقصّر وہ ہے جو ثابت شدہ اور مسلّم فضائل کا انکار کرے جیسے خلافت بلا فصل یا اہل بیت(ع) کی عصمت۔۔۔ یہ جن پر تقصیر کی تہمت لگاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان مسلّم فضائل سے انکار نہیں کرتا۔
ہم دل و جان سے ان غلاّت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار: ابو زین الہاشمی
No comments:
Post a Comment