شیعوں پر عام طور سے کیا جانے والا اعتراض اور اس کا علمی جواب
By Meesam E Tammar in True Shia Islam (Files) · Edit Docکہا جاتا ہے کہ شیعوں کو حضرت زینب س کی بددعا ہے لہٰذا یہ قیامت تک روتے رہیں گے۔
جواب: یہ بات حضرت زینب س کے اس خطبے کے حوالے سے کہی جاتی ہے جو بی بی نے کوفہ میں دیا تھا۔ البتہ افسوس اس بات پر ہے کہ کچھ اس قسم کا ماحول شام میں بھی تھا لیکن وہاں کے لوگوں کی نسبت یہ بات کیوں نہیں کہی جاتی؟ یہ ایک ناانصافی ہے اور دوسری ناانصافی یہ کہ اگر بی بی نے کہا بھی ہے تو اہل کوفہ کو کہا ہے لیکن شیعوں کے ذمہ ڈال دیا گیا اور وہ بھی شیعیان حیدر کرار کے ذمہ۔ حالانکہ اس وقت شیعہ تو سب ہی تھے اور تو کوئی مذہب موجود ہی نہ تھا۔ ہاں تھوڑے سے لوگ شیعیان حیدر کرار تھے جو شیعیان علی ع کہلاتے تھے اور اکثریت یزید یا شیعیان
” مصیبت کے وقت دکھ اور غم کا اظہار کرنا یعنی عزاداری منانا اپنے اپنے علاقے کے رسم و رواج کے مطابق ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ “
معاویہ یا شیعیان عثمان کہلاتے تھے۔
لہٰذا اس اعتراض کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اُن لوگوں کے بارے میں تحقیق کی جائے کہ جنہیں بی بی نے یہ بددعا دی، وہ کون لوگ تھے اور کس گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چونکہ اس وقت کوفہ کے اندر کم از کم چار گروہوں کے لوگ آباد تھے:
١۔ مروانیان، ٢۔ خوارج، ٣۔ عثمانیان، یعنی شیعہ عثمان کہ بہت سارے ان میں سے یزید کے ساتھ تھے اور کوفہ کی خبریں یزید کو پہنچاتے تھے، ٤۔ شیعیان علی ع، جو کہ بہت کم تعداد میں تھے۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے، وہ یہ کہ کوفہ والوں کو شیعہ کہا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کے سارے یا اکثریت شیعہ بمعنی اثناعشری اور واقعاً مخلص تھے۔ بلکہ وہ اس حوالے سے شیعہ تھے کہ حضرت علی ع کو معاویہ و عثمان پر ترجیح دیتے تھے جبکہ در واقع یا مروانی تھے یا خارجی۔۔۔ اور خیانت و منافقت کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ انہی لوگوں کی وجہ سے اہل کوفہ بے وفائی میں شہرت رکھتے ہیں ورنہ شیعیان علی ع جو حقیقی معنیٰ میں شیعہ تھے وہ تو اس وقت بھی علی ع کے ساتھ تھے جب نیزوں پر قرآن بلند کر کے لشکر علی ع میں تفرقہ ڈالا گیا اور جو حقیقی شیعہ نہ تھے اور خارجی یا عثمانی یا مروانی تھے، وہ جدا ہو گئے۔ لیکن مخلص شیعہ اس وقت بھی حضرت علی ع کے ساتھ رہے۔ یہ مخلصین اسی طرح امام حسن و حسین علیہم السلام کے ساتھ بھِی رہے۔
واقعہ عاشورا کے وقت بھی ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو معاویہ کے مظالم کی وجہ سے اس دنیا سے چل بسے تھے اور کچھ وہ تھے جو ابن زیاد کی جیلوں میں تھے۔ کچھ وہ تھے جو کوشش کر کے کربلا پہنچ گئے اور وہاں شہید ہو گئے اور کچھ وہ تھے جو بے بس اور لاچار تھے اور ابن زیاد کی پابندیوں، ناکہ بندیوں اورخوف کی وجہ سے کچھ کر نہ سکتے تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے کبھی توابین کی شکل میں تو کبھی جناب مختار کی معیت میں قتل امام حسین ع کا انتقام لینے کی کوشش کی اور شہید ہو گئے۔ اب اس ساری صورت حال کو سامنے رکھیں اور عاشورا کے بعد کا وہ دن جس دن قافلہ کوفہ میں پہنچا ذہن میں رکھیں اور بتائیں کہ کیا اس وقت ایسے ماحول میں کوئی شیعہ کوفہ میں ہو گا؟۔ نہیں، اگر کوئی تھا بھی تو وہ زیرزمین تھا۔ اب کوفہ میں یا وہ لوگ تھے جو آل محمد ص کے دشمن تھے یا وہ لوگ تھے جو علی ع کو معاویہ و عثمان پر تو مقدم سمجھتے تھے لیکن مخلص بھی نہ تھے، دو رُخے تھے، انہوں نے امام حسین ع کا ساتھ بھی نہیں دیا، لیکن قتل پہ بھی راضی نہ تھے، اور اب رسول اکرم ص کی نواسیوں کو قیدی دیکھ کر شاید رو بھی رہے ہوں، اور بی بی نے اُن خارجیوں، عثمانیوں اور مروانیوں سے یہ سب کچھ کہا۔ پس ثابت ہوا کہ اگر بی بی نے بددعا دی ہے تو اُن مسلمانوں کو جو یا تو آل محمد ص کے دشمن تھے یا ایسے مسلمان تھے جو کہ آل محمد ص کی محبت کا دم بھی بھرتے تھے لیکن پارٹی اُن کی کوئی اور تھی، جیسے شیعیان عثمان یا خوارج یا مروانیان اور بی بی نے کسی بھی قیمت اپنے بابا کے شیعوں اور اپنے بھائی کے مخلص شیعوں کو جنہوں نے قتل حسین ع کا بدلہ لیا بددعا نہیں دی ہے۔ یہاں سے اس اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ امام حسین ع کو کوفہ کے شیعوں نے خود بلایا اور پھر قتل کردیا۔ درست ہے کہ بلانے والے شیعہ تھے لیکن سارے مخلص شیعہ نہ تھے۔ یہ ایک بات اور دوسرا یہ کہ کوفہ میں صرف شیعہ نہ تھے، اور تیسری بات یہ کہ اُن بلانے والے مخلص شیعوں میں سے کوئی ایک بھی سپاہ یزید میں نہ تھا۔ اگر کوئی تھا اور پہنچ پایا تو لشکر امام حسین ع میں تھا اور امام ع کی طرف سے جہاد کرتا ہوا شہید ہوا۔ تعجب تو دوسرے شہروں کے مسلمانوں اور اصحاب پر ہے کہ جنہوں نے اس سب کچھ کے باوجود بھی امام ع کا ساتھ نہ دیا۔ قتل کرنے کیلئے تو شام سے بھی آ گئے لیکن ساتھ دینے کیلئے کوفہ کے چند مخلص شیعوں کے علاوہ کوئی بھی نہ آیا۔
Sunday, 23 December 2012
MESUME TAMMAR
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment