Sunday, 20 January 2013

syed hasni




عید زھراء ع کی شرعی و تاریخی حیثیت

تالیف : مولانا پیغمبر نوگانوی اور السید حسنی 

ہمارے معاشرے میں بہت سی عیدیں آتی ہیں جیسے عید قربان ، عید غدیر،عید مباہلہ اور عید زہرا(ع) وغیرہ. یہ ساری عیدیں کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں.

عید الفطر: یکم شوال کو ایک مہینہ کے روزے تمام کرنے کا شکرانہ اور فطرہ نکال کر غریبوں کی عید کا سامان فراہم کرنے کا ذریعہ ہے.

عید قربان: ۰۱/ذی الحجہ حضرت اسماعیل (ع) کو خدا نے ذبح ہونے سے بچالیا تھا اور اُن کی جگہ دنبہ ذبح ہوگیا تھا،جس کی یاد مسلمانوں پر ہر سال منانا سنت ہے

عید غدیر: ۸۱/ ذی الحجہ کو غدیر خم میں مولائے کائنات حضرت علی (ع) کی تاج پوشی کی یاد میں ہر سال منائی جاتی ہے،اِس دن رسول خدا(ص) نے غدیر خم کے میدان میں مولائے کائنات کو سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان ،اللہ کے حکم سے اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا تھا.

عید مباہلہ : ۲۴/ ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے،اس روز اہل بیت(ع) کے ذریعہ اسلام کو عیسائیت پر فتح نصیب ہوئی تھی.

عید زہرا(ع): ۹/ ربیع الاول کو منائی جاتی ہے اور اس عید کے منانے کی مختلف وجہیں بیان کی جاتی ہیں،مثلاً:

بعض لوگ کہتے ہیںکہ ۹/ ربیع الاول کو دشمن حضرت زہرا(ع) کا قتل  ہوا،لہٰذا یہ خوشی کا دن ہے اور اس روز کو ’’عید زہرا(ع)‘‘ کے نام سے موسوم کردیا گیا.

اس بارے میں علمائ و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نہم ربیع الاول کو فوت ہوئے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ ان کی وفات ۲۶/ ذی الحجہ کو ہوئی .جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے اُن کا قول قابل اعتبار نہیں ہے ،علامہ مجلسی(رح) اس 
بارے میں اس طرح وضاحت فرماتے ہیں کہ :
’’عمر ابن خطاب کے قتل کئے جانے کی تاریخ کے بارے میں علمائے شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے ﴿مگر﴾ دونوں کے درمیان یہی مشہور ہے کہ عمر ابن خطاب ۲۶ یا ۲۷ ذی الحجہ کو فوت ہوئے‘‘

(زاد المعاد صفحہ253 )



شیعہ فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ عمر بن خطاب کا قتل ذی الحج میں ہوا

بحار الانوار // ج 31// 119

علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار میں بھی ابن ادریس کی کتاب ’’سرائر‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

’’ہمارے بعض علما کے درمیان عمر بن خطاب کی روزِ وفات کے بارے میں اشتباہات پائے جاتے ہیں ﴿یعنی﴾ یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے،یہ نظریہ غلط ہے‘‘﴿ بحار الانوار،جلد ۸۵، صفحہ ۳۷۲،باب ۱۳، مطبوعہ تہران﴾

یعنی علامہ ابن ادریس رہ کے نزدیک قتل عمر کی  9 ربیع الاول کو تاریخ غلط ہے 

علامہ مجلسی (رح) کتاب ’’انیس العابدین ‘‘کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ :

’’اکثر شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو قتل ہوئے اور یہ صحیح نہیں ہے. بتحقیق عمر ۲۶/ ذی الحجہ کو قتل ہوئے . اور اس پر ’’صاحب کتاب غرہ‘‘ ’’ صاحب کتاب معجم‘‘ ’’صاحب کتاب طبقات‘‘ ’’صاحب کتاب مسار الشیعہ ‘‘ اور ابن طاؤوس کی نص کے علاوہ شیعوں اور سنیوں کا اجماع بھی حاصل ہے﴿بحار الانوار،جلد ۵۸،صفحہ۳۷۲،باب ۱۳،مطبوعہ تہران﴾

تنبیہ : یاد رہے کہ علامہ مجلسی رہ ،9 ربیع الاول والی تاریخ کی طرف میلان رکھتے ہیں ، بحار اور زاد المعاد میں انھوں نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں ، مگر یہاں پر ہم مجلسی رہ سے اختلاف کریں گے اور آگے جا کر 9 بیع الاول والی روایت کو رد کریں گے اور ثابت کریں گے کہ جن لوگوں نے 9 ربیع الاول کو مقتل عمر کی تاریخ ماننا ہے وہ ان کا اشتباہ ہے اور جس دلیل پر وہ اس تاریخ کو اخذ کر رہے ہیں وہ ضعیف ہے ۔ نیز خود مجلسی رہ نے بھی بحار میں اعتراف کیا ہے کہ شیعہ فقہاء میں شہرت  مقتل عمر کی ذی الحج کے آخری ایام کی  ہے اور شیعہ عوام میں مشہور 9 ربیع الاول ہے چنانچہ یہاں عوام کی شہرت حجیت نہیں رکھتی اور جو بعض فقہاء 9 ربیع الاول کے قائل ہوئے ہیں ان کو شدید اشتباہ ہوا ہے کیونکہ تمام تاریخی قرائن اور اھل سیر کے مطابق عمر بن خطاب کا قتل ذی الحج کے آخری ایام میں ہوا ہے جس پر اجماع بھی تعبدی ہے ۔ 

آیت اللہ العظمیٰ محمد یعقوبی حفظہ اللہ کے نزدیک بھی عید الزھراء کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن عمر بن خطاب کا قتل ثابت نہیں بلکہ اس کے قتل کی تاریخ ذی الحج کے آخری ایام میں ہوئی ہے اور شیخ یعقوبی نے اس عید الزھراء کی تردید میں ایک تفصیلی مقالہ لکھ کر ثابت کیا ہے کہ اس عید کا وجود آئمہ معصومین ع کے عصر میں نہیں تھا۔ ان کا مقالہ ان کی ویب سائٹ میں پڑھا جا سکتا ہے ۔ 


آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رہ کے نزدیک بھی عمر بن خطاب کے قتل کی تاریخ ایام ذی الحج کے آخری ایام کی ہے ۔ اس کا 9 ربیع الاول سے کوئی تعلق نہیں ۔

ملاحظہ کریں : تنقیح //ج 9 // ص 331

آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے نزدیک بھی عید الزھراء‌کی کوئی اصل نہیں 
ہے اور عمر بن خطاب کا قتل ذی الحج کے آخری ایام میں ہوا تھا ۔ 

(السید فضل اللہ رض سے کیا گیا استفتاء)


آیت اللہ العظمیٰ آصف محسنی حفظہ اللہ کے نزدیک بھی عمر بن  خطاب کا قتل ایام ذی الحج کے آخری ایام میں ہوا تھا اور جو روایت 9 ربیع الاول پر موجود ہے وہ ضعیف ہے اور اجماع اھل توایخ و سیر کے خلاف ہے کیونکہ عمر کا قتل ، اھل 
سیر و تواریخ کے مطابق ذی الحج کے اخری ایام میں ہوا تھا ۔ 

مشرعتہ البحار // ج 2 // 41

اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ وہ ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے﴿جو کہ غلط ہے﴾تب بھی حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی وفات پہلے ہوئی اور آپ کے دشمن یکے بعد دیگری بعد میں قتل ہوئے.تو پھر اپنے دشمنوں کی ہلاکت سے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کس طرح خوش ہوئیں .لہٰذا عید زہرا(ع) کی یہ وجہ غیر معقول نظر آتی ہے.

قتل عمر کی 9 ربیع الاول کو کہنے والی روایت کی حیثیت 

جو روایت کہتی ہے کہ عمر بن خطاب کا قتل 9 ربیع الاول کو ہوا ، اس روایت کا صحیح ہونا ثابت نہیں ، مندرجہ ذیل میں اس روایت پر اپنا نقد پیش کر رہے ہیں 

اول : اس روایت کی سند کمزور ہے ، چنانچہ ضعیف سند ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے 

دوم : اس روایت کا متن قرآن کے مخالف ہے اور اس میں تناقض پایا جاتا ہے ۔ اس کے متن پر نقد علمی ملاحظہ کریں 


اس سلسلہ میں بعض حضرات و خواتین غلط بیانی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس دن جو چاہیں گناہ کریں اس پر عذاب نہیں ہوتا اور فرشتے لکھتے بھی نہیں اور یہ لوگ علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوارکی اس طویل حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس کو علامہ مجلسی نے سید بن طاؤوس کی کتاب ’’زوائد الفوائد‘‘سے نقل کیا ہے . ہاں بحار الانوار میں ایک حدیث ایسی ضرور لکھی ہوئی ہے،مگر یہ حدیث چند وجوہات کی بنائ پر قابل اعتبار و عمل نہیں ہے:

۔ اس حدیث میں لکھا ہے کہ ۹/ ربیع الاول کو جو گناہ چاہیں کریں اس کو فرشتے نہیں لکھتے اور نہ ہی عذاب کیا جاتا ہے.

اور ہم قرآن مجید کے سورۂ زلزال کی آیت ۷ اور ۸ میں پڑھتے ہیں کہ

’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَرَہ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّاً یَرَ ہ،‘‘

’’یعنی جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہے تو وہ اسے دیکھ لے گا‘‘


امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ہر حق پر ایک حقیقت اور ہر صحیح بات پر ایک نور ہوتا ہے ، پس جو بات کتاب اللہ کے موافق ہو اسے لے لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو 

اصول کافی // ج 1 //کتاب العلم // حدیث نمبر 1 




اس روایت میں ایک جملہ اس طرح آیا ہے کہ :

’’ رسول اللہ (ص) . نے امام حسن (ع) اور امام حسین -﴿جو کہ ۹/ ربیع الاول کو آپ کے پاس بیٹھے تھے ﴾ سے فرمایا کہ اس روز کی برکت اور سعادت تمہارے لئے مبارک ہو کیوں کہ آج کے دن خدا وند عالم تمہارے اور تمہارے جد کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا ‘‘

رسول اسلام (ص) اگر مستقبل میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا حادثہ کی خبر دیں توسو فی صد صحیح ،سچ اور وقوع پذیر ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ آپ (ع) صادق الوعد ہیں.

لیکن معتبر تاریخ میں کسی بھی دشمن رسول (ص) و آل رسول(ص) کی ہلاکت ۹/ ربیع الاول کے روز نہیں ملتی لہٰذا روایت قابل اعتبار نہیں ہے.

 اس روایت کے آخر میں امام علی (ع)کے حوالے سے ۹/ ربیع الاول کے ۷۵ نام ذکر کئے گئے ہیں جن میں یوم رفع القلم ﴿گناہ نہ لکھے جانے کا دن ﴾ یوم سبیل اللہ تعالیٰ ﴿ اللہ کے راستے پر چلنے کا دن ﴾ یوم قتل المنافق ﴿ منافق کے قتل کا دن ﴾ یوم الزھد فی الکبائر ﴿گناہان کبیرہ سے بچنے کا دن ﴾ یوم الموعظہ ﴿وعظ و نصیحت کا دن ﴾ یو م العبادۃ ﴿عبادت کا دن ﴾ بھی شامل ہیں جو آپس میں متصادم ہیں یعنی ۹/ ربیع الاول کو گناہ نہ لکھنے کا دن کہہ کے سب کچھ کر ڈالنے کی تشویق بھی ہے تو یوم نصیحت و عبادت و زہد کہہ کر گناہوں سے روکا بھی گیا ہے اور یہ تضاد کلام معصوم (ع) سے بعید ہے


 اس روایت میں ایک جملہ یہ بھی آیا ہے کہ :

’’اللہ نے وحی کے ذریعہ حضرت رسول (ص) سے کہلایا کہ : اے محمد (ص) ! میں نے کرام کاتبین کو حکم دیا ہے کہ وہ ۹/ ربیع الاول کو آپ (ع) اور آپ(ع) کے وصی کے احترام میں لوگوں کے گناہوں اور ان کی خطاؤں کو نہ لکھیں ‘‘

جب کہ دوسری طرف قرآن مجید میں خداوند عالم اس طرح ارشاد فرماتا ہے کہ :

’’ ھٰذَا کِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘‘

’’یہ ہماری کتاب ﴿نامۂ اعمال ﴾ ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ہم اس میں تمہارے اعمال کو برابر لکھوا رہے تھے‘‘ ﴿سورۂ جاثیہ،آیت ۲۹﴾

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال ضرور لکھے جاتے ہیں،اور کسی بھی روز کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا ہے.

’’وَوَضَعَ الْکِتٰبُ فَتَرَیٰ الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ و َ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبَ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّا اَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَداً‘‘

’’اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ! اس کتاب ﴿نامۂ اعمال ﴾ نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے‘‘﴿سورۂ کہف، آیت ۴۹﴾

اس آیت سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال برابر لکھے جاتے ہیں اور کوئی بھی موقع اور دن اس سے مستثنیٰ نہیں ہے.

’’یَوْمَئِذٍیَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتاً لِّیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہ،‘‘

’’اس روز سارے انسان گروہ گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا‘‘﴿سورۂ زلزلہ ،آیت ۸ا۔۵﴾

اس آیت  سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے اعمال ضرور لکھے جاتے ہیں.

یہ روایت آیات قرآنی سے ٹکرا رہی ہے لہٰذا غیر معتبر ہے.



ہو سکتا ہے بعض حضرات یہ اعتراض کریں کہ اتنی معتبر شخصیات جیسے علامہ ابن طاؤوس،شیخ صدوق اور علامہ مجلسی وغیرہ نے کس طرح ضعیف روایتوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے دی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ علمائ نے کبھی بھی اہل سنت کی طرح یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ ہماری کتابوں میں جو بھی لکھا ہے وہ سب صحیح ہے،بلکہ ہمیں ان کی چھان بین کی ضرورت رہتی ہے،کیوں کہ جس زمانہ میں یہ کتابیں مرتب کی گئیں وہ پُر آشوب دور تھا اور شیعوں کی جان و مال ،عزت و آبروکے ساتھ ساتھ ثقافت بھی غیر محفوظ تھی جس کی مثالوں سے تاریخ کا دامن بھرا پڑا ہے،مسلمان حکمراں شیعوں کے علمی سرمایہ کو نذرِ آتش کرنا ہرگز نہ بھولتے تھے،ایسے ماحول میں ہمارے علمائے کرام نے ہر اس روایت اور بات کو اپنی کتابوں میںجگہ دی جو شیعوں سے تعلق رکھتی تھی،جس میں بعض غیر معتبر روایات کا شامل ہوجانا باعث تعجب نہیں ہے،چونکہ اُس زمانہ میں چھان پھٹک کا   
موقع نہ تھا اس لئے یہ کام بعد کے علمائ نے فرصت سے انجام دیا اور جن علماء نے قتل عمر کو 9 ربیع الاول کو قرار دیا ہے ، ان کو اشتباہ ہوا ہے اور جس روایت پر وہ دلیل قائم قرار رہے ہیں وہ سخت ضعیف ہیں ۔

ہمیں چاہئے کہ اِس روز بھی اسی طرح اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں جس طرح دوسرے ایام میں بچانا واجب ہے ،ہمارے ائمہ (ع)اور فقہائے عظام و مراجع کرام کا یہی حکم ہے

اقوال فقہاء عظام اور 9 ربیع الاول والی روایت کا رد

فقہاء عظام نے بھی 9 ربیع الاول والی روایت کو ضعیف کہا ہے اور اس کے متن پر اشکالات وارد کئے ہیں ۔ملاحظہ کریں 


چنانچہ  مولانا پیغمبر نوگانوی
 نے اِس بابت مراجع کرام آیت اللہ  سید علی خامنہ ای ،آیت اللہ مکارم شیرازی،آیت اللہ فاضل لنکرانی،آیت اللہ اراکی اور آیت اللہ صافی گلپائیگانی سے قم میں یہ استفتائ کیا کہ :

’’بعض لوگ عالم و غیر عالم اس بات کے معتقد ہیں کہ ۹/ ربیع الاول سے ﴿جو کہ عید زہرا(ع) سے منسوب ہے ﴾۱۱/ ربیع الاول تک انسان جو چاہے انجام دے چاہے وہ کام شرعاً ناجائزہو تب بھی گناہ شمار نہیں ہوگا اور فرشتے اسے نہیں لکھیں گے ، برائے مہربانی اس بارے میں کیا حکم ہے بیان فرمائیے

آیت اللہ  سید علی خامنہ ای صاحب نے اس طرح جواب دیا کہ :

’’شریعت کی حرام کی ہوئی وہ چیزیں جو جگہ اور وقت سے مخصوص نہیں ہیں کسی مخصوص دن کی مناسبت سے حلال نہیں ہوں گی،بلکہ ایسے محرمات ہر جگہ اور ہر وقت حرام ہیں اور جو لوگ بعض ایام میں ان کو حلال کی نسبت دیتے ہیں وہ کورا جھوٹ اور بہتان ہے اور ہر وہ کام جو بذات خود حرام ہو یا مسلمانوں کے درمیان تفرقے کا باعث ہو شرعاً گناہ اور عذاب کا باعث ہے‘‘

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی صاحب کا جواب یہ تھا کہ:

’’یہ بات ﴿کہ ۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے ﴾صحیح نہیں ہے اور کسی بھی فقیہ نے ایسا فتویٰ نہیں دیا ہے ،بلکہ ان ایام میں تزکیۂ نفس اور اہل بیت(ع) کے اخلاق سے نزدیک ہونے اور فاسق و فاجر وں کے طور طریقوں سے دور رہنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہئے‘‘

آیت اللہ فاضل لنکرانی صاحب نے یوں جواب دیا کہ:

یہ اعتقاد﴿کہ ۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے ﴾غیر صحیح ہے ان ایام میں میں بھی گناہ جائز نہیں ہے 

آیت اللہ اراکی صاحب نے تحریر فرمایاکہ :

’’وہ کام جن کو شریعت اسلام نے منع کیا ہے اور مراجع کرام نے اپنی توضیح المسائل میں ذکر کیا ہے کسی بھی وقت جائز نہیں ہیں، اور یہ باتیں کہ ﴿۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے﴾ معتبر نہیں ہیں‘‘

آیت اللہ صافی گلپائیگانی صاحب کا جواب تھا کہ :

’’یہ بات کہ ﴿۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیںجاتے ﴾ ادلّۂ احکام کے عمومات و اطلاقات کے منافی ہے اور ایسی معتبر روایت کہ جو ان عمومی و مطلق دلیلوں کو مخصوص یا مقید کردے ثابت نہیں ہے بالفرض اگر ایسی کوئی روایت ہوتی بھی تو یہ بات عقل و شریعت کے منافی ہے اور ایسی مقید و مخصص دلیلیں منصرف ہیں .‘‘


 ایک شخص نے آیت اللہ کاشف الغطائ سے سوال کیا کہ :

مشہور ہے کہ ربیع الاول کی نویں تاریخ جناب فاطمہ زہرا(ع) کی خوشی کا دن تھا اور ہے اور یہ اس حال میں ہے کہ عمر کے ۲۶/ذی الحجہ کو زخم لگا اور ۲۹/ ذی الحجہ کو فوت ہوئے لہٰذا یہ تاریخ حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی وفات سے بعد کی تاریخ ہے تو پھر حضرت فاطمہ زہرا(ع)﴿اپنے دشمن کے فوت ہونے پر﴾ کس طرح خوش ہوئیں؟

اس کا جواب آیت اللہ کاشف الغطائ نے اس طرح دیا کہ :

’’شیعہ پُرانے زمانے سے ربیع الاول کی نویں تاریخ کو عید کی طرح خوشی مناتے ہیں.کتاب اقبال میں سید ابن طاؤوس نے فرمایا ہے کہ ۹/ ربیع الاول کی خوشی اس لئے ہے کہ اس تاریخ میں عمر فوت ہو اہے اور یہ بات ایک ضعیف روایت سے لی گئی ہے جس کو شیخ صدوق نے نقل کیا ہے،لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ ۹/ربیع الاول کو شیعوں کی خوشی شاید اس وجہ سے ہے کہ ۸/ربیع الاول کو امام حسن عسکری(ع) شہید ہوئے اور ۹/ ربیع الاول اامام زمانہ (ع) کی امامت کا پہلا روز ہے .

اس خوشی کا دوسرا احتمال یہ ہے کہ ۹/ اور ۱۰/ ربیع الاول پیغمبر اسلام(ص) کی جناب خدیجہ سے شادی کا روز ہے اور حضرت فاطمہ زہرا(ع) ہر سال اس روز خوشی مناتی تھیں اور شیعہ بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے ان دنوں میں خوشی منانے لگے ،مگر شیعوں کو اس خوشی کی یہ علت معلوم نہیں ہے‘‘

﴿ سوال و جواب ،صفحہ ۱۰ و ۱۱، از آیت اللہ العظمیٰ کاشف الغطائ (رح)،ترجمہ ،مولانا ﴿ڈاکٹر﴾سید حسن اختر صاحب نوگانوی،منجانب ادارۂ تبلیغ و اشاعت نوگانواں سادات﴾


قم میں آیت اللہ شاہرودی صاحب سے استفتائ کیا تو زبانی طور پر آپ نے فرمایا کہ :

’’ اس روایت کو علامہ مجلسی(رح) نے کتاب اقبال سے نقل کیا ہے اور اس کے راوی غیر معتبر ہیں . ۹/ ربیع الاول کا مرفوع قلم نہ ہونا اظہر من الشمس ہے‘‘﴿لہٰذا مذکورہ روایت غیر معتبر ہے﴾

آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رہ 

آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض نے بھی اپنی کتاب فقہ زندگی // ص 243 میں رفع القلم والی روایت کو تفصیل کے ساتھ رد کیا ہے اور اس کو قرآن کے منافی قرار دیا ہے 

الغرض 9 ربیع الاول والی روایت جس کے مطابق اس دن عمر کا قتل ہوا ، وہ سند کے حساب سے ضعیف اور متن کے لحاظ سے قرآن کے منافی ہے اور تناقض سے پُر ہے ۔ چنانچہ اس سے استدلال کرنا صالح نہیں ہے ۔

عید الزھراء ع اور مختار ثقفی 


بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۹/ربیع الاول کو جناب مختار(رح) نے امام حسین (ع) کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا.لہٰذا یہ روز شیعوں کے لئے سرور و شادمانی کا ہے،ہم نے معتبر تاریخ کی کتابوں میں بہت تلاش کیا لیکن کہیں یہ بات نظر نہ آئی کہ جناب مختار(رح) نے ۹/ربیع الاول کو امام حسین (ع)کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا تھا.لہٰذا یہ وجہ بھی غیر معقول ہے.

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب مختار(رح) نے ابن زیاد کا سر امام زین العابدین (ع)کی خدمت میں مدینہ بھیجا اور جس روز یہ سر چوتھے امام (ع) کی خدمت میں پہنچا وہ ربیع الاول کی ۹/ تاریخ تھی،امام (ع) نے ابن زیاد کا سر دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور مختار کو دعائیں دیں نیز اسی وقت سے ان عورتوں نے بالوں میں کنگھی اور سر میں تیل ڈالنا اور آنکھوں میں سرمہ لگاناشروع کیا جو واقعہ کربلا کے بعدسے ان چیزوں کو چھوڑے ہوئے تھیں.

بالفرض اگر اسے صحیح مان لیاجائے تب بھی یہ عید جناب زینب(ع) اور جناب سید سجاد(ع) سے منسوب ہونی چاہئے تھی .اور ہمیں بھی امام زین العابدین (ع) کی پیروی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شکر خدا ادا کرنا چاہئے تھا اور جناب مختار(رح) کے لئے دعائے خیر کرنا چاہئے تھی ،لیکن نہ تو یہ عید چوتھے امام (ع) سے منسوب ہوئی اور نہ جناب زینب (ع) کے نام سے مشہور ہے لہٰذا عید زہرا(ع) کی یہ وجہ بھی غیر معقول ہے، اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جن کے گھر میں شریعت نازل ہوئی ،جن کے سامنے احکام نازل ہوئے ،جو اخلاق اسلامی کا مرصع تھے ،جنہوں نے صفائی کی بہت تاکید کی ہے وہ اتنے دن تک کس طرح بغیر سر صاف کئے ہوئے رہے ،اور کس سماج میں سر کو صاف کرنا خوشی کی علامت ہے جو اہل بیت (ع) نے واقعہ کربلا کے بعد نہ کئے؟لہٰذا یہ بھی غیر معقول معلوم ہوتا ہے!


 ربیع الاول 9 اور امامت امام مھدی ع 

بعض علماء‌ 9 ربیع الاول جو منانے کا یہ احتمال دیتے ہیں کہ 8 ربیع الاول ، امام حسن عسکری ع کی وفات کا دن ہے اور 9 ربیع الاول امام محمد مھدی ع کی امامت کے آغاز کا دن ہے ، چنانچہ اس دن یہ خوشی منانی چاہیئے اور ان کی تاج پوشی کا دن ہے ، لیکن یہ احتمال ضعف سے خالی نہیں ہے کیونکہ اسلام میں اور مذہب تشیع میں تاج پوشی کا کوئی تصور نہیں ، نیز امام مھدی ع کی امامت کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب 8 ربیع الاول کو امام حسن عسکری ع کی وفات ہوئی تھی کیونکہ مذہب تشیع کے مطابق زمین حجت خدا کے بغیر خالی نہیں رہ سکتی ۔ چنانچہ ایک دن بعد امامت مھدی ع کا آغاز ہونا ، اصول مذہب تشیع کے منافی ہے کیونکہ حجت خدا کی امامت کا اغاز 8 ربیع الاول کو ہی ہو گیا تھا ، اپنے والد امام حسن عسکری ع کی وفات کے بعد ، نیز جو لوگ اس دن جشن تاج پوشی مناتے ہیں کیا وہ 11 محرم کو امام سجاد ع کی امامت کے اغاز کا پر بھی جشن منانے کو تیار ہیں ؟


نتیجہ

یہ بات واضح ہوجانے کے بعد کہ اس عید کی کوئی شرعی و تاریخی حیثیت نہیں ہے تو اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے ، وہ یہ کہ اس خوشی کو کس طرح منائیں .؟اسی طرح جیسے اکثر بستیوں میں منائی جاتی ہے ؟ یا پھر اس میں تبدیلی ہونی چاہئے؟

جن ہستیوں سے یہ خوشی منسوب ہے اُن کے کردار کی جھلک بھی اس خوشی اور عید میں نظر آنی چاہئے یا نہیں؟

یہ خوشی امام زمانہ (ع)اور حضرت فاطمہ زہرا(ع) سے منسوب ہے تو کیا ہمیں ان معصومین (ع) کے شایان شان اس خوشی کو نہیں منانا چاہئے ؟.ہمیں کیا ہوگیا ہے ! اپنے زندہ امام کی خوشی کو اس انداز سے مناتے ہیں ؟دنیا کی جاہل ترین قومیں بھی اپنے رہبر کی خوشی اس طرح نہ مناتی ہوں گی .

افسوس صد ہزار افسوس! آج کل اگر کسی سیاسی و سماجی شخصیت کے اعزاز میں جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں تو ان کو اُسی کے شایان شان طریقے سے اختتام تک پہنچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.

لیکن عید زہرا(ع) ! جو خاتون ِ جنت ،جگر گوشۂ رسول (ص) زوجۂ علی مرتضیٰ (ع) ،ام الائمہ زہرا بتول (ع)کے نام سے منسوب ہے وہ اس طرح منائی جاتی ہے کہ اس میں شریف انسان شریک ہونے کی جرأت بھی نہ کر سکے؟!

اس کے علاوہ عالم اسلام پر جس طرح خطرات کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ،کتنا اچھا ہو اگر عید زہرا(ع) اپنے حقیقی معنوں میں اس طرح منائی جائے جس میں تمام مسلمین شریک ہوسکیں .

تبرہ فروع دین سے تعلق رکھتا ہے اور فروع دین کا دارو مدار عمل سے ہے . اگر کوئی مسلمان صرف زبان سے کہے کہ نماز ،روزہ، حج، زکوٰۃ،خمس وغیرہ واجب ہیں تو یہ تمام واجبات جب تک عملی صورت میں ادا نہ ہوجائیں گردن پرقضا ہی رہیں گے.فروع دین کے واجبات وقت اور زمانے سے مخصوص ہیں، جس طرح نماز کے اوقات بتائے گئے ہیں اسی طرح روزہ ،زکوٰۃ،حج اور خمس وغیرہ کازمانہ بھی معین ہے ، لیکن امر باالمعروف ،نہی عن المنکر،تولا اور تبرا یہ دین کے ایسے فروع ہیں جن کے لئے کوئی وقت اور زمانہ معین نہیں ہے ،بالخصوص تولا اور تبرا سے تو ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں رہ سکتے ،یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک منٹ کے لئے محبت اہل بیت(ع) کو دل سے نکال دیا گیا ہے یا ایک لمحہ کے لئے دشمنان اہل بیت (ع) کے کردار کو اپنا لیا گیا ہے ، جب ایسا ہے . تو پھرتبرہ کو ۹/ ربیع الاول سے کیوں مخصوص کردیا گیا ؟ اِسی روز اس کی کیوں تاکید ہوتی ہے؟ باقی دنوں میں اس طرح کیوں یاد نہیں آتا؟وہ بھی صرف زبانی! .

زبان سے تبرا کافی نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں آکر تبرا کریں یعنی اہل بیت (ع) کے دشمنوں کی اطاعت و حکمرانی دل سے قبول نہ کریں اور ان کے پست کردار کونہ اپنائیں.

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شیعہ جو خمس نہ نکالتا ہو اور بیٹیوں کو میراث سے محروم رکھتا ہو وہ غاصبین پر لعنت کرے اور اس لعنت میں خود بھی شامل نہ ہوجائے .

وہ شیعہ جو اپنے عملِ بد سے اہل بیت (ع) کو ناراض کرتا ہو اور وہ اہل بیت(ع) کو ستانے والوں پر لعنت کرے اور اس لعنت کے دائرے میں خود بھی نہ آجائے.

یاد رکھئے ! لعنت نام پر نہیں ،کردار پر ہوتی ہے اسی لئے اس کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے.

تالیف : مولانا پیغمبر نوگانوی اور السید حسنی 

ہمارے معاشرے میں بہت سی عیدیں آتی ہیں جیسے عید قربان ، عید غدیر،عید مباہلہ اور عید زہرا(ع) وغیرہ. یہ ساری عیدیں کسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں.

عید الفطر: یکم شوال کو ایک مہینہ کے روزے تمام کرنے کا شکرانہ اور فطرہ نکال کر غریبوں کی عید کا سامان فراہم کرنے کا ذریعہ ہے.

عید قربان: ۰۱/ذی الحجہ حضرت اسماعیل (ع) کو خدا نے ذبح ہونے سے بچالیا تھا اور اُن کی جگہ دنبہ ذبح ہوگیا تھا،جس کی یاد مسلمانوں پر ہر سال منانا سنت ہے

عید غدیر: ۸۱/ ذی الحجہ کو غدیر خم میں مولائے کائنات حضرت علی (ع) کی تاج پوشی کی یاد میں ہر سال منائی جاتی ہے،اِس دن رسول خدا(ص) نے غدیر خم کے میدان میں مولائے کائنات کو سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان ،اللہ کے حکم سے اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا تھا.

عید مباہلہ : ۲۴/ ذی الحجہ کو منائی جاتی ہے،اس روز اہل بیت(ع) کے ذریعہ اسلام کو عیسائیت پر فتح نصیب ہوئی تھی.

عید زہرا(ع): ۹/ ربیع الاول کو منائی جاتی ہے اور اس عید کے منانے کی مختلف وجہیں بیان کی جاتی ہیں،مثلاً:

بعض لوگ کہتے ہیںکہ ۹/ ربیع الاول کو دشمن حضرت زہرا(ع) کا قتل  ہوا،لہٰذا یہ خوشی کا دن ہے اور اس روز کو ’’عید زہرا(ع)‘‘ کے نام سے موسوم کردیا گیا.

اس بارے میں علمائ و مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ،بعض کہتے ہیں کہ عمر ابن خطاب نہم ربیع الاول کو فوت ہوئے اور بعض دیگر کہتے ہیں کہ ان کی وفات ۲۶/ ذی الحجہ کو ہوئی .جو لو گ یہ کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے اُن کا قول قابل اعتبار نہیں ہے ،علامہ مجلسی(رح) اس 
بارے میں اس طرح وضاحت فرماتے ہیں کہ :
’’عمر ابن خطاب کے قتل کئے جانے کی تاریخ کے بارے میں علمائے شیعہ و سنی کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے ﴿مگر﴾ دونوں کے درمیان یہی مشہور ہے کہ عمر ابن خطاب ۲۶ یا ۲۷ ذی الحجہ کو فوت ہوئے‘‘

(زاد المعاد صفحہ253 )



شیعہ فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ عمر بن خطاب کا قتل ذی الحج میں ہوا

بحار الانوار // ج 31// 119

علامہ مجلسی (رح) نے بحار الانوار میں بھی ابن ادریس کی کتاب ’’سرائر‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ :

’’ہمارے بعض علما کے درمیان عمر بن خطاب کی روزِ وفات کے بارے میں اشتباہات پائے جاتے ہیں ﴿یعنی﴾ یہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے،یہ نظریہ غلط ہے‘‘﴿ بحار الانوار،جلد ۸۵، صفحہ ۳۷۲،باب ۱۳، مطبوعہ تہران﴾

یعنی علامہ ابن ادریس رہ کے نزدیک قتل عمر کی  9 ربیع الاول کو تاریخ غلط ہے 

علامہ مجلسی (رح) کتاب ’’انیس العابدین ‘‘کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ :

’’اکثر شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب ۹/ ربیع الاول کو قتل ہوئے اور یہ صحیح نہیں ہے. بتحقیق عمر ۲۶/ ذی الحجہ کو قتل ہوئے . اور اس پر ’’صاحب کتاب غرہ‘‘ ’’ صاحب کتاب معجم‘‘ ’’صاحب کتاب طبقات‘‘ ’’صاحب کتاب مسار الشیعہ ‘‘ اور ابن طاؤوس کی نص کے علاوہ شیعوں اور سنیوں کا اجماع بھی حاصل ہے﴿بحار الانوار،جلد ۵۸،صفحہ۳۷۲،باب ۱۳،مطبوعہ تہران﴾

تنبیہ : یاد رہے کہ علامہ مجلسی رہ ،9 ربیع الاول والی تاریخ کی طرف میلان رکھتے ہیں ، بحار اور زاد المعاد میں انھوں نے مختلف اقوال نقل کئے ہیں ، مگر یہاں پر ہم مجلسی رہ سے اختلاف کریں گے اور آگے جا کر 9 بیع الاول والی روایت کو رد کریں گے اور ثابت کریں گے کہ جن لوگوں نے 9 ربیع الاول کو مقتل عمر کی تاریخ ماننا ہے وہ ان کا اشتباہ ہے اور جس دلیل پر وہ اس تاریخ کو اخذ کر رہے ہیں وہ ضعیف ہے ۔ نیز خود مجلسی رہ نے بھی بحار میں اعتراف کیا ہے کہ شیعہ فقہاء میں شہرت  مقتل عمر کی ذی الحج کے آخری ایام کی  ہے اور شیعہ عوام میں مشہور 9 ربیع الاول ہے چنانچہ یہاں عوام کی شہرت حجیت نہیں رکھتی اور جو بعض فقہاء 9 ربیع الاول کے قائل ہوئے ہیں ان کو شدید اشتباہ ہوا ہے کیونکہ تمام تاریخی قرائن اور اھل سیر کے مطابق عمر بن خطاب کا قتل ذی الحج کے آخری ایام میں ہوا ہے جس پر اجماع بھی تعبدی ہے ۔ 

آیت اللہ العظمیٰ محمد یعقوبی حفظہ اللہ کے نزدیک بھی عید الزھراء کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اس دن عمر بن خطاب کا قتل ثابت نہیں بلکہ اس کے قتل کی تاریخ ذی الحج کے آخری ایام میں ہوئی ہے اور شیخ یعقوبی نے اس عید الزھراء کی تردید میں ایک تفصیلی مقالہ لکھ کر ثابت کیا ہے کہ اس عید کا وجود آئمہ معصومین ع کے عصر میں نہیں تھا۔ ان کا مقالہ ان کی ویب سائٹ میں پڑھا جا سکتا ہے ۔ 


آیت اللہ العظمیٰ امام خوئی رہ کے نزدیک بھی عمر بن خطاب کے قتل کی تاریخ ایام ذی الحج کے آخری ایام کی ہے ۔ اس کا 9 ربیع الاول سے کوئی تعلق نہیں ۔

ملاحظہ کریں : تنقیح //ج 9 // ص 331

آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے نزدیک بھی عید الزھراء‌کی کوئی اصل نہیں 
ہے اور عمر بن خطاب کا قتل ذی الحج کے آخری ایام میں ہوا تھا ۔ 

(السید فضل اللہ رض سے کیا گیا استفتاء)


آیت اللہ العظمیٰ آصف محسنی حفظہ اللہ کے نزدیک بھی عمر بن  خطاب کا قتل ایام ذی الحج کے آخری ایام میں ہوا تھا اور جو روایت 9 ربیع الاول پر موجود ہے وہ ضعیف ہے اور اجماع اھل توایخ و سیر کے خلاف ہے کیونکہ عمر کا قتل ، اھل 
سیر و تواریخ کے مطابق ذی الحج کے اخری ایام میں ہوا تھا ۔ 

مشرعتہ البحار // ج 2 // 41

اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ وہ ۹/ ربیع الاول کو فوت ہوئے﴿جو کہ غلط ہے﴾تب بھی حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی وفات پہلے ہوئی اور آپ کے دشمن یکے بعد دیگری بعد میں قتل ہوئے.تو پھر اپنے دشمنوں کی ہلاکت سے حضرت فاطمہ زہرا(ع) کس طرح خوش ہوئیں .لہٰذا عید زہرا(ع) کی یہ وجہ غیر معقول نظر آتی ہے.

قتل عمر کی 9 ربیع الاول کو کہنے والی روایت کی حیثیت 

جو روایت کہتی ہے کہ عمر بن خطاب کا قتل 9 ربیع الاول کو ہوا ، اس روایت کا صحیح ہونا ثابت نہیں ، مندرجہ ذیل میں اس روایت پر اپنا نقد پیش کر رہے ہیں 

اول : اس روایت کی سند کمزور ہے ، چنانچہ ضعیف سند ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے 

دوم : اس روایت کا متن قرآن کے مخالف ہے اور اس میں تناقض پایا جاتا ہے ۔ اس کے متن پر نقد علمی ملاحظہ کریں 


اس سلسلہ میں بعض حضرات و خواتین غلط بیانی کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اس دن جو چاہیں گناہ کریں اس پر عذاب نہیں ہوتا اور فرشتے لکھتے بھی نہیں اور یہ لوگ علامہ مجلسی کی کتاب بحار الانوارکی اس طویل حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس کو علامہ مجلسی نے سید بن طاؤوس کی کتاب ’’زوائد الفوائد‘‘سے نقل کیا ہے . ہاں بحار الانوار میں ایک حدیث ایسی ضرور لکھی ہوئی ہے،مگر یہ حدیث چند وجوہات کی بنائ پر قابل اعتبار و عمل نہیں ہے:

۔ اس حدیث میں لکھا ہے کہ ۹/ ربیع الاول کو جو گناہ چاہیں کریں اس کو فرشتے نہیں لکھتے اور نہ ہی عذاب کیا جاتا ہے.

اور ہم قرآن مجید کے سورۂ زلزال کی آیت ۷ اور ۸ میں پڑھتے ہیں کہ

’’فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَرَرَہ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّاً یَرَ ہ،‘‘

’’یعنی جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی ہے تو وہ اسے دیکھ لے گا‘‘


امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ہر حق پر ایک حقیقت اور ہر صحیح بات پر ایک نور ہوتا ہے ، پس جو بات کتاب اللہ کے موافق ہو اسے لے لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو 

اصول کافی // ج 1 //کتاب العلم // حدیث نمبر 1 




اس روایت میں ایک جملہ اس طرح آیا ہے کہ :

’’ رسول اللہ (ص) . نے امام حسن (ع) اور امام حسین -﴿جو کہ ۹/ ربیع الاول کو آپ کے پاس بیٹھے تھے ﴾ سے فرمایا کہ اس روز کی برکت اور سعادت تمہارے لئے مبارک ہو کیوں کہ آج کے دن خدا وند عالم تمہارے اور تمہارے جد کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا ‘‘

رسول اسلام (ص) اگر مستقبل میں رونما ہونے والے کسی واقعہ یا حادثہ کی خبر دیں توسو فی صد صحیح ،سچ اور وقوع پذیر ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کیوں کہ آپ (ع) صادق الوعد ہیں.

لیکن معتبر تاریخ میں کسی بھی دشمن رسول (ص) و آل رسول(ص) کی ہلاکت ۹/ ربیع الاول کے روز نہیں ملتی لہٰذا روایت قابل اعتبار نہیں ہے.

 اس روایت کے آخر میں امام علی (ع)کے حوالے سے ۹/ ربیع الاول کے ۷۵ نام ذکر کئے گئے ہیں جن میں یوم رفع القلم ﴿گناہ نہ لکھے جانے کا دن ﴾ یوم سبیل اللہ تعالیٰ ﴿ اللہ کے راستے پر چلنے کا دن ﴾ یوم قتل المنافق ﴿ منافق کے قتل کا دن ﴾ یوم الزھد فی الکبائر ﴿گناہان کبیرہ سے بچنے کا دن ﴾ یوم الموعظہ ﴿وعظ و نصیحت کا دن ﴾ یو م العبادۃ ﴿عبادت کا دن ﴾ بھی شامل ہیں جو آپس میں متصادم ہیں یعنی ۹/ ربیع الاول کو گناہ نہ لکھنے کا دن کہہ کے سب کچھ کر ڈالنے کی تشویق بھی ہے تو یوم نصیحت و عبادت و زہد کہہ کر گناہوں سے روکا بھی گیا ہے اور یہ تضاد کلام معصوم (ع) سے بعید ہے


 اس روایت میں ایک جملہ یہ بھی آیا ہے کہ :

’’اللہ نے وحی کے ذریعہ حضرت رسول (ص) سے کہلایا کہ : اے محمد (ص) ! میں نے کرام کاتبین کو حکم دیا ہے کہ وہ ۹/ ربیع الاول کو آپ (ع) اور آپ(ع) کے وصی کے احترام میں لوگوں کے گناہوں اور ان کی خطاؤں کو نہ لکھیں ‘‘

جب کہ دوسری طرف قرآن مجید میں خداوند عالم اس طرح ارشاد فرماتا ہے کہ :

’’ ھٰذَا کِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ اِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ‘‘

’’یہ ہماری کتاب ﴿نامۂ اعمال ﴾ ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ہم اس میں تمہارے اعمال کو برابر لکھوا رہے تھے‘‘ ﴿سورۂ جاثیہ،آیت ۲۹﴾

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال ضرور لکھے جاتے ہیں،اور کسی بھی روز کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا ہے.

’’وَوَضَعَ الْکِتٰبُ فَتَرَیٰ الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ و َ یَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبَ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّ لَا کَبِیْرَۃً اِلَّا اَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَداً‘‘

’’اور جب نامۂ اعمال سامنے رکھا جائے گا تو دیکھو گے کہ مجرمین اس کے مندرجات کو دیکھ کر خوفزدہ ہوں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ! اس کتاب ﴿نامۂ اعمال ﴾ نے تو چھوٹا بڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کرلیا ہے اور سب اپنے اعمال کو بالکل حاضر پائیں گے اور تمہارا پروردگار کسی ایک پر بھی ظلم نہیں کرتاہے‘‘﴿سورۂ کہف، آیت ۴۹﴾

اس آیت سے بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے اعمال برابر لکھے جاتے ہیں اور کوئی بھی موقع اور دن اس سے مستثنیٰ نہیں ہے.

’’یَوْمَئِذٍیَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتاً لِّیُرَوْا اَعْمَالَھُمْ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرّاً یَّرَہ،‘‘

’’اس روز سارے انسان گروہ گروہ قبروں سے نکلیں گے تاکہ اپنے اعمال کو دیکھ سکیں پھر جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی ہے وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا‘‘﴿سورۂ زلزلہ ،آیت ۸ا۔۵﴾

اس آیت  سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسانوں کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے اعمال ضرور لکھے جاتے ہیں.

یہ روایت آیات قرآنی سے ٹکرا رہی ہے لہٰذا غیر معتبر ہے.



ہو سکتا ہے بعض حضرات یہ اعتراض کریں کہ اتنی معتبر شخصیات جیسے علامہ ابن طاؤوس،شیخ صدوق اور علامہ مجلسی وغیرہ نے کس طرح ضعیف روایتوں کو اپنی کتابوں میں جگہ دے دی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ علمائ نے کبھی بھی اہل سنت کی طرح یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ ہماری کتابوں میں جو بھی لکھا ہے وہ سب صحیح ہے،بلکہ ہمیں ان کی چھان بین کی ضرورت رہتی ہے،کیوں کہ جس زمانہ میں یہ کتابیں مرتب کی گئیں وہ پُر آشوب دور تھا اور شیعوں کی جان و مال ،عزت و آبروکے ساتھ ساتھ ثقافت بھی غیر محفوظ تھی جس کی مثالوں سے تاریخ کا دامن بھرا پڑا ہے،مسلمان حکمراں شیعوں کے علمی سرمایہ کو نذرِ آتش کرنا ہرگز نہ بھولتے تھے،ایسے ماحول میں ہمارے علمائے کرام نے ہر اس روایت اور بات کو اپنی کتابوں میںجگہ دی جو شیعوں سے تعلق رکھتی تھی،جس میں بعض غیر معتبر روایات کا شامل ہوجانا باعث تعجب نہیں ہے،چونکہ اُس زمانہ میں چھان پھٹک کا   
موقع نہ تھا اس لئے یہ کام بعد کے علمائ نے فرصت سے انجام دیا اور جن علماء نے قتل عمر کو 9 ربیع الاول کو قرار دیا ہے ، ان کو اشتباہ ہوا ہے اور جس روایت پر وہ دلیل قائم قرار رہے ہیں وہ سخت ضعیف ہیں ۔

ہمیں چاہئے کہ اِس روز بھی اسی طرح اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں جس طرح دوسرے ایام میں بچانا واجب ہے ،ہمارے ائمہ (ع)اور فقہائے عظام و مراجع کرام کا یہی حکم ہے

اقوال فقہاء عظام اور 9 ربیع الاول والی روایت کا رد

فقہاء عظام نے بھی 9 ربیع الاول والی روایت کو ضعیف کہا ہے اور اس کے متن پر اشکالات وارد کئے ہیں ۔ملاحظہ کریں 


چنانچہ  مولانا پیغمبر نوگانوی
 نے اِس بابت مراجع کرام آیت اللہ  سید علی خامنہ ای ،آیت اللہ مکارم شیرازی،آیت اللہ فاضل لنکرانی،آیت اللہ اراکی اور آیت اللہ صافی گلپائیگانی سے قم میں یہ استفتائ کیا کہ :

’’بعض لوگ عالم و غیر عالم اس بات کے معتقد ہیں کہ ۹/ ربیع الاول سے ﴿جو کہ عید زہرا(ع) سے منسوب ہے ﴾۱۱/ ربیع الاول تک انسان جو چاہے انجام دے چاہے وہ کام شرعاً ناجائزہو تب بھی گناہ شمار نہیں ہوگا اور فرشتے اسے نہیں لکھیں گے ، برائے مہربانی اس بارے میں کیا حکم ہے بیان فرمائیے

آیت اللہ  سید علی خامنہ ای صاحب نے اس طرح جواب دیا کہ :

’’شریعت کی حرام کی ہوئی وہ چیزیں جو جگہ اور وقت سے مخصوص نہیں ہیں کسی مخصوص دن کی مناسبت سے حلال نہیں ہوں گی،بلکہ ایسے محرمات ہر جگہ اور ہر وقت حرام ہیں اور جو لوگ بعض ایام میں ان کو حلال کی نسبت دیتے ہیں وہ کورا جھوٹ اور بہتان ہے اور ہر وہ کام جو بذات خود حرام ہو یا مسلمانوں کے درمیان تفرقے کا باعث ہو شرعاً گناہ اور عذاب کا باعث ہے‘‘

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی صاحب کا جواب یہ تھا کہ:

’’یہ بات ﴿کہ ۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے ﴾صحیح نہیں ہے اور کسی بھی فقیہ نے ایسا فتویٰ نہیں دیا ہے ،بلکہ ان ایام میں تزکیۂ نفس اور اہل بیت(ع) کے اخلاق سے نزدیک ہونے اور فاسق و فاجر وں کے طور طریقوں سے دور رہنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہئے‘‘

آیت اللہ فاضل لنکرانی صاحب نے یوں جواب دیا کہ:

یہ اعتقاد﴿کہ ۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے ﴾غیر صحیح ہے ان ایام میں میں بھی گناہ جائز نہیں ہے 

آیت اللہ اراکی صاحب نے تحریر فرمایاکہ :

’’وہ کام جن کو شریعت اسلام نے منع کیا ہے اور مراجع کرام نے اپنی توضیح المسائل میں ذکر کیا ہے کسی بھی وقت جائز نہیں ہیں، اور یہ باتیں کہ ﴿۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیں جاتے﴾ معتبر نہیں ہیں‘‘

آیت اللہ صافی گلپائیگانی صاحب کا جواب تھا کہ :

’’یہ بات کہ ﴿۹/ ربیع الاول کو گناہ لکھے نہیںجاتے ﴾ ادلّۂ احکام کے عمومات و اطلاقات کے منافی ہے اور ایسی معتبر روایت کہ جو ان عمومی و مطلق دلیلوں کو مخصوص یا مقید کردے ثابت نہیں ہے بالفرض اگر ایسی کوئی روایت ہوتی بھی تو یہ بات عقل و شریعت کے منافی ہے اور ایسی مقید و مخصص دلیلیں منصرف ہیں .‘‘


 ایک شخص نے آیت اللہ کاشف الغطائ سے سوال کیا کہ :

مشہور ہے کہ ربیع الاول کی نویں تاریخ جناب فاطمہ زہرا(ع) کی خوشی کا دن تھا اور ہے اور یہ اس حال میں ہے کہ عمر کے ۲۶/ذی الحجہ کو زخم لگا اور ۲۹/ ذی الحجہ کو فوت ہوئے لہٰذا یہ تاریخ حضرت فاطمہ زہرا(ع) کی وفات سے بعد کی تاریخ ہے تو پھر حضرت فاطمہ زہرا(ع)﴿اپنے دشمن کے فوت ہونے پر﴾ کس طرح خوش ہوئیں؟

اس کا جواب آیت اللہ کاشف الغطائ نے اس طرح دیا کہ :

’’شیعہ پُرانے زمانے سے ربیع الاول کی نویں تاریخ کو عید کی طرح خوشی مناتے ہیں.کتاب اقبال میں سید ابن طاؤوس نے فرمایا ہے کہ ۹/ ربیع الاول کی خوشی اس لئے ہے کہ اس تاریخ میں عمر فوت ہو اہے اور یہ بات ایک ضعیف روایت سے لی گئی ہے جس کو شیخ صدوق نے نقل کیا ہے،لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ ۹/ربیع الاول کو شیعوں کی خوشی شاید اس وجہ سے ہے کہ ۸/ربیع الاول کو امام حسن عسکری(ع) شہید ہوئے اور ۹/ ربیع الاول اامام زمانہ (ع) کی امامت کا پہلا روز ہے .

اس خوشی کا دوسرا احتمال یہ ہے کہ ۹/ اور ۱۰/ ربیع الاول پیغمبر اسلام(ص) کی جناب خدیجہ سے شادی کا روز ہے اور حضرت فاطمہ زہرا(ع) ہر سال اس روز خوشی مناتی تھیں اور شیعہ بھی آپ کی پیروی کرتے ہوئے ان دنوں میں خوشی منانے لگے ،مگر شیعوں کو اس خوشی کی یہ علت معلوم نہیں ہے‘‘

﴿ سوال و جواب ،صفحہ ۱۰ و ۱۱، از آیت اللہ العظمیٰ کاشف الغطائ (رح)،ترجمہ ،مولانا ﴿ڈاکٹر﴾سید حسن اختر صاحب نوگانوی،منجانب ادارۂ تبلیغ و اشاعت نوگانواں سادات﴾


قم میں آیت اللہ شاہرودی صاحب سے استفتائ کیا تو زبانی طور پر آپ نے فرمایا کہ :

’’ اس روایت کو علامہ مجلسی(رح) نے کتاب اقبال سے نقل کیا ہے اور اس کے راوی غیر معتبر ہیں . ۹/ ربیع الاول کا مرفوع قلم نہ ہونا اظہر من الشمس ہے‘‘﴿لہٰذا مذکورہ روایت غیر معتبر ہے﴾

آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رہ 

آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض نے بھی اپنی کتاب فقہ زندگی // ص 243 میں رفع القلم والی روایت کو تفصیل کے ساتھ رد کیا ہے اور اس کو قرآن کے منافی قرار دیا ہے 

الغرض 9 ربیع الاول والی روایت جس کے مطابق اس دن عمر کا قتل ہوا ، وہ سند کے حساب سے ضعیف اور متن کے لحاظ سے قرآن کے منافی ہے اور تناقض سے پُر ہے ۔ چنانچہ اس سے استدلال کرنا صالح نہیں ہے ۔

عید الزھراء ع اور مختار ثقفی 


بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۹/ربیع الاول کو جناب مختار(رح) نے امام حسین (ع) کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا.لہٰذا یہ روز شیعوں کے لئے سرور و شادمانی کا ہے،ہم نے معتبر تاریخ کی کتابوں میں بہت تلاش کیا لیکن کہیں یہ بات نظر نہ آئی کہ جناب مختار(رح) نے ۹/ربیع الاول کو امام حسین (ع)کے قاتلوں کو واصل جہنم کیا تھا.لہٰذا یہ وجہ بھی غیر معقول ہے.

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جناب مختار(رح) نے ابن زیاد کا سر امام زین العابدین (ع)کی خدمت میں مدینہ بھیجا اور جس روز یہ سر چوتھے امام (ع) کی خدمت میں پہنچا وہ ربیع الاول کی ۹/ تاریخ تھی،امام (ع) نے ابن زیاد کا سر دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور مختار کو دعائیں دیں نیز اسی وقت سے ان عورتوں نے بالوں میں کنگھی اور سر میں تیل ڈالنا اور آنکھوں میں سرمہ لگاناشروع کیا جو واقعہ کربلا کے بعدسے ان چیزوں کو چھوڑے ہوئے تھیں.

بالفرض اگر اسے صحیح مان لیاجائے تب بھی یہ عید جناب زینب(ع) اور جناب سید سجاد(ع) سے منسوب ہونی چاہئے تھی .اور ہمیں بھی امام زین العابدین (ع) کی پیروی کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ شکر خدا ادا کرنا چاہئے تھا اور جناب مختار(رح) کے لئے دعائے خیر کرنا چاہئے تھی ،لیکن نہ تو یہ عید چوتھے امام (ع) سے منسوب ہوئی اور نہ جناب زینب (ع) کے نام سے مشہور ہے لہٰذا عید زہرا(ع) کی یہ وجہ بھی غیر معقول ہے، اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جن کے گھر میں شریعت نازل ہوئی ،جن کے سامنے احکام نازل ہوئے ،جو اخلاق اسلامی کا مرصع تھے ،جنہوں نے صفائی کی بہت تاکید کی ہے وہ اتنے دن تک کس طرح بغیر سر صاف کئے ہوئے رہے ،اور کس سماج میں سر کو صاف کرنا خوشی کی علامت ہے جو اہل بیت (ع) نے واقعہ کربلا کے بعد نہ کئے؟لہٰذا یہ بھی غیر معقول معلوم ہوتا ہے!


 ربیع الاول 9 اور امامت امام مھدی ع 

بعض علماء‌ 9 ربیع الاول جو منانے کا یہ احتمال دیتے ہیں کہ 8 ربیع الاول ، امام حسن عسکری ع کی وفات کا دن ہے اور 9 ربیع الاول امام محمد مھدی ع کی امامت کے آغاز کا دن ہے ، چنانچہ اس دن یہ خوشی منانی چاہیئے اور ان کی تاج پوشی کا دن ہے ، لیکن یہ احتمال ضعف سے خالی نہیں ہے کیونکہ اسلام میں اور مذہب تشیع میں تاج پوشی کا کوئی تصور نہیں ، نیز امام مھدی ع کی امامت کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب 8 ربیع الاول کو امام حسن عسکری ع کی وفات ہوئی تھی کیونکہ مذہب تشیع کے مطابق زمین حجت خدا کے بغیر خالی نہیں رہ سکتی ۔ چنانچہ ایک دن بعد امامت مھدی ع کا آغاز ہونا ، اصول مذہب تشیع کے منافی ہے کیونکہ حجت خدا کی امامت کا اغاز 8 ربیع الاول کو ہی ہو گیا تھا ، اپنے والد امام حسن عسکری ع کی وفات کے بعد ، نیز جو لوگ اس دن جشن تاج پوشی مناتے ہیں کیا وہ 11 محرم کو امام سجاد ع کی امامت کے اغاز کا پر بھی جشن منانے کو تیار ہیں ؟


نتیجہ

یہ بات واضح ہوجانے کے بعد کہ اس عید کی کوئی شرعی و تاریخی حیثیت نہیں ہے تو اب ایک سوال اور باقی رہ جاتا ہے ، وہ یہ کہ اس خوشی کو کس طرح منائیں .؟اسی طرح جیسے اکثر بستیوں میں منائی جاتی ہے ؟ یا پھر اس میں تبدیلی ہونی چاہئے؟

جن ہستیوں سے یہ خوشی منسوب ہے اُن کے کردار کی جھلک بھی اس خوشی اور عید میں نظر آنی چاہئے یا نہیں؟

یہ خوشی امام زمانہ (ع)اور حضرت فاطمہ زہرا(ع) سے منسوب ہے تو کیا ہمیں ان معصومین (ع) کے شایان شان اس خوشی کو نہیں منانا چاہئے ؟.ہمیں کیا ہوگیا ہے ! اپنے زندہ امام کی خوشی کو اس انداز سے مناتے ہیں ؟دنیا کی جاہل ترین قومیں بھی اپنے رہبر کی خوشی اس طرح نہ مناتی ہوں گی .

افسوس صد ہزار افسوس! آج کل اگر کسی سیاسی و سماجی شخصیت کے اعزاز میں جلسے جلوس منعقد کئے جاتے ہیں تو ان کو اُسی کے شایان شان طریقے سے اختتام تک پہنچانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.

لیکن عید زہرا(ع) ! جو خاتون ِ جنت ،جگر گوشۂ رسول (ص) زوجۂ علی مرتضیٰ (ع) ،ام الائمہ زہرا بتول (ع)کے نام سے منسوب ہے وہ اس طرح منائی جاتی ہے کہ اس میں شریف انسان شریک ہونے کی جرأت بھی نہ کر سکے؟!

اس کے علاوہ عالم اسلام پر جس طرح خطرات کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ،کتنا اچھا ہو اگر عید زہرا(ع) اپنے حقیقی معنوں میں اس طرح منائی جائے جس میں تمام مسلمین شریک ہوسکیں .

تبرہ فروع دین سے تعلق رکھتا ہے اور فروع دین کا دارو مدار عمل سے ہے . اگر کوئی مسلمان صرف زبان سے کہے کہ نماز ،روزہ، حج، زکوٰۃ،خمس وغیرہ واجب ہیں تو یہ تمام واجبات جب تک عملی صورت میں ادا نہ ہوجائیں گردن پرقضا ہی رہیں گے.فروع دین کے واجبات وقت اور زمانے سے مخصوص ہیں، جس طرح نماز کے اوقات بتائے گئے ہیں اسی طرح روزہ ،زکوٰۃ،حج اور خمس وغیرہ کازمانہ بھی معین ہے ، لیکن امر باالمعروف ،نہی عن المنکر،تولا اور تبرا یہ دین کے ایسے فروع ہیں جن کے لئے کوئی وقت اور زمانہ معین نہیں ہے ،بالخصوص تولا اور تبرا سے تو ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں رہ سکتے ،یعنی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایک منٹ کے لئے محبت اہل بیت(ع) کو دل سے نکال دیا گیا ہے یا ایک لمحہ کے لئے دشمنان اہل بیت (ع) کے کردار کو اپنا لیا گیا ہے ، جب ایسا ہے . تو پھرتبرہ کو ۹/ ربیع الاول سے کیوں مخصوص کردیا گیا ؟ اِسی روز اس کی کیوں تاکید ہوتی ہے؟ باقی دنوں میں اس طرح کیوں یاد نہیں آتا؟وہ بھی صرف زبانی! .

زبان سے تبرا کافی نہیں ہے بلکہ عملی میدان میں آکر تبرا کریں یعنی اہل بیت (ع) کے دشمنوں کی اطاعت و حکمرانی دل سے قبول نہ کریں اور ان کے پست کردار کونہ اپنائیں.

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شیعہ جو خمس نہ نکالتا ہو اور بیٹیوں کو میراث سے محروم رکھتا ہو وہ غاصبین پر لعنت کرے اور اس لعنت میں خود بھی شامل نہ ہوجائے .

وہ شیعہ جو اپنے عملِ بد سے اہل بیت (ع) کو ناراض کرتا ہو اور وہ اہل بیت(ع) کو ستانے والوں پر لعنت کرے اور اس لعنت کے دائرے میں خود بھی نہ آجائے.

یاد رکھئے ! لعنت نام پر نہیں ،کردار پر ہوتی ہے اسی لئے اس کا دائرہ بہت وسیع ہوتا ہے.

No comments:

Post a Comment