Saturday, 5 January 2013

hasni bhai

ایک اھم سوال اور اس کا اھم جواب

سوال : جناب میرزا جواد تبریزی نے آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے اجتھاد پر کلام کیا تھا ؟ اس کی حقیقت کیا ہے اور آپ اس کے کلام پر کیا نقد فرمائیں گے ؟

جواب :

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی فقیہ کی مرجعیت و فقاہت کا تعین اس کی تحقیق ، دروس اور علمی قابلیت کے حساب سے کیا جاتا ہے نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ فلاں فقیہ نے فلاں فقیہ کے خلاف گواہی دی تو اس فلاں کے کہنے پر فلاں کی مرجعیت ثابت نہیں ۔
الحمداللہ ! حضرت آیت اللہ العظمیٰ السید محمد حسین فضل اللہ رض کا اجتہاد ، ان کی فقاہت پر کوئی شک و شبہ نہیں بلکہ ان کی تحقیقی کتب ، درس خارج کی ابحاث سے ان کی فقاہت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

جہاں تک رہی بات کہ آیت اللہ العظمیٰ فضل اللہ رض کے خلاف 40 سے زیادہ مراجع نے فتویٰ دیا تھا تو پہلی بات یہ ہے کہ جو بعض الناس ، ایک مدلس شخص کی ویب سائٹ سے جو لنک شیئر کرتے ہیں ، اس لنک میں جو فتاویٰ ہیں ان میں سے 90 % استفتات جعلی ہیں یا پھر ان میں کوئی ضال و مضل والی بات ہی نہیں ہے بلکہ ان میں ایک تاریخی موضوع پر سوال کیا گیا ہے اور اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ اس میں نہ آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کو ضال و مضل کہا گیا ہے اور نہ ہی کو ان کے اجتھاد پر بات

چنانچہ ! میں مومنین کو انتباہ کروں گا کہ وہ اس مدلس شخص کی ویب سائٹ اور غلاۃ کے فتنہ سے بچ کر رہے کیونکہ ان کا کام فتنہ و فساد ڈالنا ہے ۔

اب جہاں تک رہی بات کہ جناب مرزا جواد تبریزی صاحب نے آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کی مرجعیت پر سوال اٹھایا ، اور کہا کہ السید رض کی ترویج وغیرہ جائز نہیں ۔۔۔

تو ہم جناب مرزا جواد تبریزی کے اس کلام پر نقد اس طرح کریں گے کہ مرزا جواد تبریزی کا یہ کلام ، "مات المفتی ، مات الفتویٰ‌ "کا مصداق ہے یعنی مفتی مر گیا ، ساتھ میں اس کا فتویٰ بھی مر گیا ۔ یہ اس لئے کہ جناب جواد تبریزی صاحب نے یہ فتویٰ صادر کرنے میں جلد بازی سے کام لیا ، اس کے متعلق خود آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض اپنی زندگی میں فرماتے تھے کہ مرزا جواد تبریزی صاحب کو میرے متعلق کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے مجھ سے رابطہ ضرور کر لیتے اور جو باتیں میرے متعلق ، ان کو پہنچائی گئی ہیں ، ان کی تصدیق لازمی کرا لیتے ، مگر افسوس انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ میں کوئی مجہول شخص نہیں ہوں

خیر ! جناب مرزا جواد تبریزی صاحب کے اگر فتویٰ کو مان لیا جائے جو السید فضل اللہ رض کے اجتھاد کے متعلق ہے کہ السید رض کا اجتھاد ثابت نہیں اور اس کی ترویج نہیں کرنی چاہیئے ، تو پھر ان تمام جید فقہاء کے اجتھاد پر بھی سوالیہ نشان لگے گا جنہوں نے آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے اجتھاد و فقاہت کی تائید کی اور ان کو اجازہ اجتھاد دیا ، جن میں سر فہرست مجاھد آیت اللہ العظمیٰ منتظری رض ہیں جنہوں نے آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے اجتھاد کی تائید کرتے ہوئے ان کو اجازہ اجتھاد دیا ، یاد رہے کہ آیت اللہ العظمیٰ منتظری رض فقہی لحاظ سے اعلم اور جید فقہی تھے ۔

اس کے ساتھ اگر ہم جناب مرزا جواد تبریزی کے اس کلام کو مان لیں تو پھر ہم کو ان کثیر فقہاء کے اجتھاد پر بھی سوالیہ نشان لگانا پڑے گا جنہوں نے آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کی وفات کے بعد ان کی تقلید پر باقی رہنے کو جائز کہا ہے جن میں - آية الله العظمى الشيخ يوسف صانعي ، - آية الله العظمی مکارم الشيرازي ، آية الله العظمى الشيخ محمّد ابراهيم الجنّاتي ،- آية الله العظمى الأستاذ السيد كاظم الحائري ،- آية الله السيد كمال الحيدري ،- المرجع الشيخ محمد اليعقوبي وغیرہ فقہاء‌شامل ہیں ، جنہوں نے آیت اللہ العظمیٰ فضل اللہ رض کی وفات کے بعد السید رض کو فقیہ و مجتھد مانتے ہوئے ان کی تقلید پر باقی رہنے کو جائز قرار دیا ۔

معاذاللہ اگر السید رض ضال و مضل ہوتے یا جناب تبریزی صاحب کے فتویٰ کے مطابق ان کی ترویج جائز نہ ہوتی تو پھر یہ جید فقہاء ، السید رض کے اجتھاد کی گواہی نہ دیتے ۔ چنانچہ جناب میرزا جواد تبریزی کے ایک فتویٰ کو ماننے سے ہمیں کثیر جید فقہا‌ء‌ کی فقاہت و اجتھاد کا انکار کرنے پڑے گا ۔ معاذاللہ

نیز اگر ہم فتاویٰ پر ہی رہنا چاہتے ہیں تو ایک مجتھد نے دوسرے مجتھد کے خلاف فتاویٰ دیے ہیں کہ فلاں کا اجتھاد ثابت نہیں ، ایسی مثالیں ، تاریخ تشیع میں موجود ہیں ، ایک معاصر مثال ہی کو ہم لیتے ہیں کہ آیت اللہ اسحاق فیاض کے مطابق جناب مرجع آیت اللہ محمد یعقوبی مجتھد نہیں ہیں اور نہ ہی جناب آیت اللہ کمال حیدری کا اجتھاد ثابت ہے تو کیا اب ہم آیت اللہ اسحاق فیاض کے اس فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے مرجع یعقوبی حفظہ اللہ اور جناب کمال حیدری حفظہ اللہ کے اجتھاد و فقاہت کا انکار کر دیں گے جبکہ ان مذکورہ دو شخصیات کے اجتھاد کی بنیاد ان کی تحقیق اور ان کے دروس ابحاث خارج ہیں جن کے مطابق ان کا اجتھاد ثابت شدہ ہے

نیز جناب میرزا جواد تبریزی صاحب نے جو آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے متعلق بعض استفتات کے جوابات دیے تھے ، ان کا رد اور اس پر تعلیقات خود السید فضل اللہ رض نے لکھی ہیں ، جو کہ ایک کتاب کی صورت میں چھپ بھی چکی ہیں ۔ اس کتاب کا نام ہے : "تعلیقات آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض علی الاسئلتہ التی وجھت آیت اللہ جواد تبریزی "

اس کتاب میں امام فضل اللہ رض نے آیت اللہ جواد تبریزی کے تمام ان جوابات جو السید فضل اللہ رض کے متعلق تھے ان پر تعلیقات لکھ کر ان کا رد کیا ہے ۔ الحمد اللہ

آخر میں یہ ہی عرض کروں گا کہ کسی بھی فقیہ کی فقاہت و اجتھاد کسی دوسرے شخص کی رائے کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کی قابلیت ، تحقیق اور دروس و تالیفات اس کی فقاہت کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں اور آیت اللہ العظمیٰ‌السید فضل اللہ رض کی تحقیق ، دروس ابحاث خارج ، تالیفات ان کے اجتھاد کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

مومنین سے بھی عرض کروں گا کہ وہ اگر آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض کے متعلق جاننے چاہتے ہیں تو السید فضل اللہ رض کے آثار کا مطالعہ کریں ، ان کو خود حقائق سے آگہی حاصل ہو جائے گی کیونکہ السید فضل اللہ رض کے آثار عین اسلام 

اور تشیع کے مطابق ہیں‌ ، السید رض کی فکر ، اھل بیت ع کی فکر ہے

وسلام

محب و شاگرد آیت اللہ العظمیٰ السید فضل اللہ رض
 
 

No comments:

Post a Comment