امام حسن ع کی تدفین کے حوالے سے بعض حقائق اور بعض الناس کے اعتراضات کے جوابات
امام حسن ع کی شہادت کے بعد ، یہ بات اھل سنت و اھل تشیع کے معتبر اخبار سے ثابت ہے کہ جناب ام المومنین بی بی عائشہ اور دیگر بنو امیہ نے ان کو رسول اللہ ع کے پہلو میںدفن ہونے سے روکا تھا ، جیسا کہ علل الشرائع کی معتبر روایت میں امام صادق فرماتے ہیں
امام جعفر صادق ع نے فرمایا کہ رسول اللہ کے بعد سب سے پہلی عورت جو خچر پر سوار آئی وہ حضرت عائشہ تھیں وہ خچر پر سوار ہو کر آئیں اور انہوں نے امام حسن ع کو رسول اللہ ع کے پہلو میں دفن کرنے کو منع کر دیا۔
سند پر مختصر بحث
مندرجہ بالا روایت کی سند کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں سوائے حسین بن حسن بن ابان کے ، یہ مختلف فیہ راوی ہے ۔ ابن ولید جو نقاد رجال امامیہ ہیں انھوں نے اس پر اعتماد کیا ہے ۔ علامہ ابن دائود نے محمد بن اورمہ کے ترجمہ میں حسین بن حسن کو ثقہ کہا ہے اور علامہ حلی نے شیخ صدوق رہ کے طریق کو صحیح کہا ہے جس میں حسین بن حسن بن ابان موجود ہیں ۔ واللہ العالم ,والحمد لله رب العالمين
عربی متن
قال الشيخ الصدوق حدثنا محمد بن الحسن رضي الله عنه قال : حدثنا الحسين بن الحسن ابن أبان ، عن الحسين بن سعيد ، عن النضر بن سويد ، عن هشام بن سالم ، عن سليمان بن خالد ، عن أبي عبد الله " ع " قال أبو عبد الله " ع " أول امرأة ركبت البغل بعد رسول الله صلى الله عليه وآله عائشة جاءت إلى المسجد فمنعت ان يدفن الحسن بن علي مع رسول الله صلى الله عليه وآله
علل الشرائع ج 1 ص 225 باب 161 ح1
معتبر اخبار سے بس اتنا ثابت ہے کہ بی بی عائشہ نے امام حسن ع کو رسول اللہ ع کے پاس دفن ہونے سے روکا تھا مگر جو بات بی بی عائشہ سے منسوب کی جاتی ہے کہ انھوں نے امام حسن ع کے جنازہ پر تیر چلائیں یا چلانے کا حکم دیا ، اس کے بات کے متعلق ہم نے کچھ ماہ قبل ذکر کیا تھا کہ ایسا معتبر اخبار میں ذکر نہیں ہے اور اس کا صدور بی بی عائشہ سے ہونا ثابت نہیں ہے ۔
لیکن بعض الناس جو ہر کسی پر تہمت لگانے میں جلد بعض ہیں ، انھوں نے ہم پر یہ تہمت لگائی کہ ہم نے کہا ہے کہ
"ایسا ہونا بالکل بھی مروی ہی نہیں ہے "، جبکہ ہماری سابقہ تحریر میں ذکر ہے کہ بعض مرسل روایت میں ذکر ہے مگر ان میں بی بی عائشہ کا ذکر نہیں ہے کہ انھوں نے تیر چلایا بلکہ اس کی نسبت مروان کی طرف ہے ، جبکہ یہ روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کا قطعی ہونا ثابت نہیں
چنانچہ بعض الناس نے آیت اللہ مکارم کے دفتر سے استفتا کیا تو ان کا جواب آیا کہ ایسا بعض کتب میں تیر چلانے کا اشارہ ہوا ہے ۔
اللہ ، ان بعض الناس کو علم سلیم عطا کرے جو استفتاءسے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ تیر چلانے والی روایت معتبر ہے اور ان کا قطعی ہونا ثابت ہے ۔ چنانچہ ہم اس حوالے سے نقد بیش کرتے ہیں
پہلی بات یہ ہے کہ آیت اللہ مکارم کے استفتاءمیں کہی بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ تیر چلانا قوی روایات سے ثابت ہے اور اس کا صدور قطعی ہے ۔ صرف یہ کہا ہے کہ بعض کتب میں اشارہ ہوا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ کتب میں تو ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہے تو کیا ان سب رطب و یابس کا معتبر ہونا ثابت ہو جائے گا ۔ چنانچہ آیت اللہ مکارم کے دفتر کے اس فتویٰ سے استدلال کرنا مردود ہے ۔
دوسری بات کہ اصول کافی میں امام حسن ع کی شہادت اور تدفین کے حوالے سے تین روایات ذکر ہوئی ہیں جو کہ بااسناد متصل روایات آئمہ اھل بیت ع سے مروی ہیں جن میں صرف اتنا لکھا ہے کہ بی بی عائشہ نے امام حسن ع کو روضہ رسول میں دفن ہونے سے روکا تھا ، اور اس پر بنی ہاشم ، امام حسین و محمد حنفیہ وغیرہ نے شدید احتجاج کیا اور ان بااسناد متصل روایات میں آئمہ ع نے کہی بھی یہ ذکر نہیں کیا کہ بی بی عائشہ نے تیر بھی چلائے ۔ چنانچہ اگر کسی مرسل روایت میں بغیر کسی شخص کی نسبت کے ، اگر تیر چلانے کا ذکر ہے تو وہ اصول کافی اور علل الشرایع کی معتبر بااسناد متصل روایت کے سامنے اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں رہے گے کیونکہ جب متصل سند کے ساتھ آئمہ ع سے صرف اتنا ثابت ہے کہ عائشہ نے روکا تھا ، روضہ رسول میں دفن ہونے سے ، اور تیر چلانے کا کوئی ذکر نہیں تو جو مرسل روایت ہے جس کے ناقل کا معلوم نہیں کون ہے ، اس میں اگر ذکر ہے کہ تیر چلایا کسی نے ، تو متصل سند کے سامنے مرسل روایت کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ اس سے استدلال کرنا مردود ہوگا
تیسرا یہ کہ بعض الناس نے ذکر کیا ہے کہ شیخ عباس قمی نے منتھی میں مناقب شہر ابن آشوب سے نقل کیا ہے کہ امام حسن ع کے جنازہ پر تیر چلے اور ستر تیر چلے ۔۔۔ مگر جب ہم نے منتھی الامال میں اس روایت کو دیکھا تو وہاں صرف یہ درج ہے کہ روایت میں ذکر ہے کہ امام حسن کے جنازہ پر تیر چلے مگر اس روایت سے استدلال کرنا مردود ہے کیونکہ
اول : یہ روایت مرسل نقل کی گئی ہے اور صیغہ تمریض کے ساتھ ، جو کہ اس کے ضعف پر دلالت کرتا ہے
ثانی : اس روایت میں ذکر نہیں ہے کہ تیر کس نے چلایا چنانچہ ہم اس روایت سے قطعی یہ نہیں کہ سکتے کہ تیر جناب عائشہ نے چلایا ہو
اس کے علاوہ مناقب شہر ابن آشوب میںجب ہم نے وہاں مراجع کیا تو وہاں روایت اس طرح درج ہے کہ امام حسن ع کے جنازہ پر تیر چلائے گے اور تیر چلانے والا مروان تھا ۔۔۔ مگر اس روایت کی سند مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور اس کا قطعی صدور ممکن نہیں ہے معتبر اخبار اس کی تائید نہیں کرتے ۔
بعض نے کسی زیارت کا حوالہ دیا ہے کہ اس میںذکر ہے تیر چلانے کا ، تو اس خاص خبر احاد سے بھی استدلال نہیں کرسکتے اور اس کا صدور بھی قطعی نہیں ، نیز اس میںبھی اس جملہ کی نسبت کسی سے ثابت نہیں کہ کس نے تیر چلائے ۔
باالفرض ، اگر کوئی ایسی روایت موجود ہے جس میںتیر چلانے کا ذکر ہو اور اس کی نسبت بی بی عائشہ کی طرف ہو کہ انھوں نے تیر چلائے تو ایسی خبر ضعیف ہے ، اس کا صدور قطعی ثابت نہیں کیونکہ معتبر علل الشرائع میںاور بااسناد متصل روایات جو آئمہ اھل بیت ع سے مروی ہیں ،اصول کافی میں ، اس میں کہی بھی تیر چلانے کا ذکر نہیں ہے صرف اتنا ثابت ہے کہ بی بی عائشہ نے امام حسن ع کو روضہ رسول ع میں دفن ہونے سے روکا اور یہ ہی ظلم امام حسن ہے اور ان کے شدید مصائب میں سے ہے
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو کسی پر جھوٹی تہمت لگانے سے محفوظ رکھے اور صحیح و معتبر اخبار ، جن کا قطعی صادر ہونا آئمہ اھل بیت ع سے ثابت ہو ،استدلال کرنے کی توفقی دے ۔
No comments:
Post a Comment