٭تقلید کا اثبات قرآن مجید سے٭
قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے؛
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
... ...
مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر جماعت میں سے ایک گروہ نکل کھڑا ہو تاکہ وہ دین کا فہم حاصل کریں(فقیہ بنیں) اور وہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب وہ ان کی طرف واپس لَوٹیں تاکہ شاید وہ (ہلاکت سے) بچ جائیں۔
سورہ توبہ: 122
اللہ نے فقیہ بننے کا حکم ہر مومن کو نہیں دیا، بلکہ معاشرے کے ایک گروہ پر یہ ذمّہ داری سونپی ہے کہ احکام خداوندی میں تبحّر و تفقّہ پیدا کریں اور باقی لوگوں کی رہنمائی کریں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اللہ کے دین کا فہم حاصل کرنا کچھ لوگوں پر فرض ہے تو باقی لوگ کیا کریں؟ کیا وہ دین پر عمل کرنا چھوڑ دیں؟
نہیں۔ بلکہ اللہ کی یہ آیت آگے کہتی ہے کہ ان علماء کی ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو احکام الہی بتاتے رہیں تاکہ وہ ہلاک نہ ہوں اور عوام کو چاھئے کہ وہ دین کے معاملے میں ان علماء کی پیروی کریں، اور اسی پیروی کا نام "تقلید" ہے :)
کچھ اخباری حضرات سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تحصیل علم دین میں برسوں لگ جاتے ہیں اور ہر شخص کے لئے سیکھنا انتہائی شاق ہے تو ایک عام آدمی کیا کرے؟ اس پر یہ لوگ اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا پر کہتے ہیں کہ جو شخص تحصیل دین نہ کرے وہ "جاہل مقصّر" ہے، یعنی ایسا شخص جو سیکھنے پر قادر ہو اور نہ سیکھے یعنی اس کے اعمال اکارت ہو جائیں گے۔
ان کم فہم لوگوں کو اس آیت کو غور سے پڑھنا چاھئے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کچھ لوگوں کو تو دین کے فہم کو حاصل کرنے کا حکم دے اور باقیوں کو جاہل مقصّر بننے کا حکم دے؟
پس ثابت ہوا کہ تقلید کرنا جہالت نہیں بلکہ یہ بھی حصول علم کا ذریعہ ہے، جو خود فقیہ نہیں بن سکتا اور کسی فقیہ کی پیروی یعنی تقلید بھی نہیں کرتا وہ اس آیت قرآنی کے مطابق ہلاک ہو جائے گا کیونکہ وہ خود جاہل مقصّر ہے۔
وما علینا الاّ البلاغ
خاکسار: ابو زین الہاشمی
قرآن میں ارشاد باری تعالی ہے؛
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُواْ كَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُواْ فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُواْ قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ
... ...
مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر جماعت میں سے ایک گروہ نکل کھڑا ہو تاکہ وہ دین کا فہم حاصل کریں(فقیہ بنیں) اور وہ اپنی قوم کو خبردار کریں جب وہ ان کی طرف واپس لَوٹیں تاکہ شاید وہ (ہلاکت سے) بچ جائیں۔
سورہ توبہ: 122
اللہ نے فقیہ بننے کا حکم ہر مومن کو نہیں دیا، بلکہ معاشرے کے ایک گروہ پر یہ ذمّہ داری سونپی ہے کہ احکام خداوندی میں تبحّر و تفقّہ پیدا کریں اور باقی لوگوں کی رہنمائی کریں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب اللہ کے دین کا فہم حاصل کرنا کچھ لوگوں پر فرض ہے تو باقی لوگ کیا کریں؟ کیا وہ دین پر عمل کرنا چھوڑ دیں؟
نہیں۔ بلکہ اللہ کی یہ آیت آگے کہتی ہے کہ ان علماء کی ذمہ داری ہے کہ اپنی قوم کو احکام الہی بتاتے رہیں تاکہ وہ ہلاک نہ ہوں اور عوام کو چاھئے کہ وہ دین کے معاملے میں ان علماء کی پیروی کریں، اور اسی پیروی کا نام "تقلید" ہے :)
کچھ اخباری حضرات سے جب پوچھا جاتا ہے کہ تحصیل علم دین میں برسوں لگ جاتے ہیں اور ہر شخص کے لئے سیکھنا انتہائی شاق ہے تو ایک عام آدمی کیا کرے؟ اس پر یہ لوگ اپنی کم علمی اور کج فہمی کی بنا پر کہتے ہیں کہ جو شخص تحصیل دین نہ کرے وہ "جاہل مقصّر" ہے، یعنی ایسا شخص جو سیکھنے پر قادر ہو اور نہ سیکھے یعنی اس کے اعمال اکارت ہو جائیں گے۔
ان کم فہم لوگوں کو اس آیت کو غور سے پڑھنا چاھئے، یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کچھ لوگوں کو تو دین کے فہم کو حاصل کرنے کا حکم دے اور باقیوں کو جاہل مقصّر بننے کا حکم دے؟
پس ثابت ہوا کہ تقلید کرنا جہالت نہیں بلکہ یہ بھی حصول علم کا ذریعہ ہے، جو خود فقیہ نہیں بن سکتا اور کسی فقیہ کی پیروی یعنی تقلید بھی نہیں کرتا وہ اس آیت قرآنی کے مطابق ہلاک ہو جائے گا کیونکہ وہ خود جاہل مقصّر ہے۔
وما علینا الاّ البلاغ
خاکسار: ابو زین الہاشمی